پاکستان میں آج تک وزرائے اعظم کے خلاف لائی جانے والی کوئی بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو پائی ہے، لیکن اس بار عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ سپریم کورٹ چلا گیا ہے کیوں کہ تحریک پر ووٹنگ کے دن سپیکر نے اسے مسترد کر دیا اور عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کروا کر خود اپنی حکومت ختم کرلی۔
اگر عبوری وزرائے اعظم کو شمار نہ کریں تو پاکستان میں اب تک کل 22 وزرائے اعظم گزرے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک وزیراعظم بھی اپنی آئینی مدت یعنی پانچ سال پورے نہیں کرسکا اور کسی نہ کسی وجہ سے انہیں یہ عہدہ یا تو خود چھوڑنا پڑا یا ان سے چھڑوا لیا گیا۔
لیاقت علی خان
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر سب سے طویل عرصے تک براجمان رہنے کا ریکارڈ ملک کے سب سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ہی کا ہے جو آج تک قائم ہے۔
لیاقت علی خان پاکستان کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ 15 اگست 1947 سے 16 اکتوبر 1951 تک یعنی 1523 دن مسند اقتدار پر رہے۔ ان کا اقتدار ان کے قتل پر ختم ہوا۔ ان کے قتل کا مقام آج بھی راولپنڈی میں لیاقت باغ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی مقام یعنی لیاقت باغ کے باہر پاکستان کی ایک اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو بھی ایک جلسے کے اختتام پر قتل کیا گیا تھا۔
نواز شریف
2013 میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا اور دو بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان بنے۔
لیاقت علی خان کے بعد سب سے زیادہ دیر اس عہدے پر رہنے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تھے جو پانچ جون 2013 سے 28 جولائی 2017 تک یعنی 1514 دن بطور وزیراعظم حکمران رہے اور پھر عدالتی حکم پر انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا، البتہ ان کی جماعت کی حکومت نے آئینی مدت مکمل کی اور شاہد خاقان عباسی بقیہ دورانیے کے لیے وزیراعظم رہے۔
یوسف رضا گیلانی
ویسے تو یوسف رضا گیلانی سب سے زیادہ دن وزیراعظم رہے لیکن چونکہ ان کے خلاف عدالتی حکم پچھلی تاریخوں یعنی بیک ڈیٹ میں آیا تھا، لہٰذا ان کے بطور باضابطہ وزیراعظم دن کم بنتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوسف رضا گیلانی کل 1492 دن وزیراعظم رہے اور ان کا دورِ حکمرانی 25 مارچ 2008 سے 24 اپریل 2012 تک تھا۔ یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے تھے جس پر انہیں چند سیکنڈ کی قید کی سزا بھی ہوئی تھی اور اسی عدالتی حکم پر وہ اقتدار سے محروم ہوئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو
1973 میں ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان کے استعفے کے بعد صدر بنے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے واحد رہنما ہیں، جو صدر، وزیرِ اعظم اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر رہے ہیں۔
1973 میں وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے خود ہی قبل از وقت انتخابات کروائے، جس میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جنرل ضیا الحق نے انہیں معزول کرکے مارشل لا لگا دیا۔
وہ 14 اگست 1973 سے پانچ جولائی 1977 تک وزیر اعظم رہے، اس طرح ان کی مدت حکمرانی 1421 دن بنتی ہے۔
عمران خان
انہوں نے 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا مگر شروع ہی سے ان کی حکومت حزبِ اختلاف کے احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں کی زد میں رہی۔ رہی سہی کسر کرونا کی وبا نے پوری کی، جس کے دوران ملک میں آمد و رفت معطل اور انتہائی ضروری امور کے علاوہ زندگی جام ہوگئی تھی۔
عمران خان کے خلاف بالآخر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، جس کے بعد خود پی ٹی آئی کے کئی روٹھے ہوئے اراکین قومی اسمبلی نے متحدہ اپوزیشن سے ہاتھ ملا لیا اور رہی سہی کسر ان اتحادیوں نے پوری کردی جو ساڑھے تین سال اقتدار میں شریک تھے۔
اس تحریک عدم اعتماد کا ڈراپ سین اتوار (تین اپریل) کو ہوا جب بظاہر ووٹنگ کے لیے جمع ہونے والی حزب اختلاف کی قرارداد مسترد کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر نے اسمبلی کا اجلاس ختم کردیا۔
آناً فاناً عمران خان نے صدر سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست کی جو کہ فوراً منظور کرلی گئی۔ اس طرح عمران بھی وزیراعظم نہیں رہے۔ البتہ صدر نے ان کو نگراں انتظامیہ کے منتخب ہونے تک بطور وزیر اعظم کام جاری رکھنے کو کہا ہے۔
عمران خان نے 18 اگست 2018 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور وہ 1324 دن اقتدار میں رہنے کے بعد اقتدار سے الگ ہوگئے۔