پنجاب: عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور، کام ٹھپ

وزیراعظم کی جانب سے وزیراعلٰی عثمان بزدار کا استعفیٰ لیے جانے پر صوبائی محکموں میں کام بھی ٹھپ ہوگیا اور وزارتوں کے دفاتر میں رونقیں بھی ماند پڑ چکی ہیں۔

صوبہ پنجاب کے گورنر ہاؤس کے ترجمان کے مطابق وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کا گورنر پنجاب کو بھیجا گیا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے، جبکہ نئے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس کل یعنی دو اپریل کو طلب کر لیا گیا ہے۔

یاد رہے چند روز قبل وزیراعظم کی جانب سے وزیراعلٰی عثمان بزدار کا استعفیٰ لیے جانے پر صوبائی محکموں میں کام بھی ٹھپ ہوگیا تھا اور وزارتوں کے دفاتر میں رونقیں بھی ماند پڑ چکی ہیں۔

سرکاری ریکارڈز کے مطابق محکموں نے وزیراعلٰی سیکرٹریٹ کو انتظامی اجازت کی سمریاں بھی بھجوانا بند کر دی اور جو سمریاں حالیہ ہفتوں میں موصول ہوئی ہیں وہ بھی التوا کا شکار ہیں۔

ریکارڈز کے مطابق ترقیاتی فنڈز کا استعمال ہر سال مارچ میں بڑھ جاتا ہے لیکن اس بار اس کا استعمال بھی 30 فیصد تک کم ہو گیا ہے۔ جس سے کئی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کا خدشہ ہے جس سے ان کی لاگت زیادہ ہوسکتی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ جب اس طرح کی صورتحال بنتی ہے تو انتظامی معاملات واقعی متاثر ہوتے ہیں۔ جب تک نئے وزیر اعلی کا انتخاب اور کابینہ تشکیل نہیں دی جاتی صورتحال ایسی ہی رہے گی۔

وزارتوں اور محکموں کی صورتحال:

پنجاب کابینہ کے اراکین ان دنوں کیونکہ سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور انہیں یہ بھی یقین ہے کہ وزیراعلٰی کا استعفی منظور ہوتے ہیں کابینہ تحلیل ہوجائے گی تو وہ سرکاری امور میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دے رہے۔

پنجاب کے منسٹرز آفسز بلاک کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب سے وزیراعلٰی عثمان بزدار کا استعفی گورنر کو بھجوایا گیا ہے وزرا دفاتر میں کم بیٹھ رہے ہیں اور آج سے بعض وزرا نے دفتری ریکارڈ بھی محکموں کو واپس بھجوانا شروع کر دیا ہے۔‘

محکموں کی جانب سے آئندہ ماہ شروع ہونے والی تمام نئی پالیسیاں روک لی گئی ہیں۔

محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ ہر سال مارچ کے ماہ میں بجٹ استعمال کرنے کی جو شرح 70سے 80 فیصد تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ اپریل میں بجٹ تجاویز بھجوانی ہوتی ہیں لیکن اس بار گذشتہ ماہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر 30فیصد تک استعمال کم ہو گیا ہے۔

سول سیکرٹریٹ کور کرنے والے صحافی علی رامے کے بقول ’مختلف محکموں کی جانب سے وزیراعلٰی سیکرٹریٹ کو مختلف منصوبوں سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر اور کابینہ کی اجازت کے لیے بھجوائی جانے والی سمریاں بھی روک دی گئی ہیں کیونکہ جو گذشتہ ماہ بھجوائی گئی تھیں وہ بھی تاخیر کا شکار ہیں۔‘

گزشتہ ماہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد نہیں ہوسکا جس سے نئے قوانین کی منظوری بھی تعطل کاشکار ہےاور حلقوں میں درپیش مسائل سے متعلق اراکین کے سوالات بھی اسمبلی سیکرٹریٹ میں ہی رکے ہیں۔

حکومتی ترجیحات:

وفاق کی طرح پنجاب میں بھی بیورو کریسی حکومت کی متوقع تبدیلی کے پیش نظر طویل مدت کے منصوبوں پر فوری کرنے والے کام جاری رکھنے سے گریزاں ہے۔

صوبائی وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی حکومتوں میں ایسی صورتحال بنتی ہے تو وزرا کی محکموں میں دلچسپی اس لیے کم ہوجاتی ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کابینہ تحلیل ہونے والی ہے اور نئی حکومت میں کیا ہوتا ہے، کون وزیر بنتا ہے اس کا اندازہ پہلے نہیں لگایا جا سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول ’اگرچہ وزیراعلٰی کا استعفی منظور ہونے اور نئے وزیر اعلی کے منتخب ہونے پر ہی کابینہ تحلیل ہوتی ہے مگر جب یقین ہو کہ اب ایوانوں میں تبدیلی آنے والی ہے تو بیوروکریسی بھی اس طرح تعاون نہیں کرتی جس طرح معمول میں کر رہی ہوتی ہے کیونکہ انہیں بھی اندازہ ہوجاتاہے کہ اب وزرا کی تبدیلی کے ساتھ پالیسیاں بھی تبدیل ہوجائیں گی۔ لہذا نئی پالیسیوں سے متعلق ان کے تحفظات بڑھ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایسی صورتحال سالوں بعد بنتی ہے اس لیے ان حالات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔‘

حسین جہانیاں نے کہا کہ ’یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ایسے حالات میں محکمے وزیراعلٰی کو سمریاں بھجوانا بند کر دیتے ہیں تاکہ نئے وزیر اعلی کے آنے پر دوبارہ انہیں پالیسیاں تبدیل نہ کرنا پڑیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عوامی مسائل سے متعلق ادارے کام کرتے رہتے ہیں کیونکہ بجٹ میں طے شدہ فنڈز محکموں کو سکیموں کے لحاظ سے سالانہ دینے کا فارمولہ طے ہوتا ہے البتہ ان میں سست روی ضرور آتی ہے لیکن بند کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘

واضح رہے کہ وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے گورنر پنجاب کو استعفی جمع کرانے کے بعد لاہور میں دو اضلاع بنانے، تحصیل مری اور تونسہ کو اضلاع کا درجہ دینے کو نوٹیفکیشن جاری کیا اور وزرا و اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں بھی کیں ہیں۔

ترجمان وزیراعلٰی کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پارلیمنٹیرینز کو مختلف سیکٹرز میں نئے پراجیکٹس کے بارے میں بریف کیا کہ ’صوبے میں 360 ارب روپے کی لاگت سے 47 میگا پراجیکٹس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پنجاب میں اربوں روپے کے ان منصوبوں کا فائدہ عوام کو پہنچے گا۔ پارلیمنٹیرینز کو نئے پراجیکٹس کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری سمجھا، مصروفیات کے باعث اضلاع میں جا کر منصوبوں کاافتتاح اورسنگ بنیاد نہیں رکھ سکا۔‘

انہوں نے ایسے منصوبوں کا بھی آغاز کرنے کا اعلان کیا جو کافی ماہ سے رکے ہوئے تھے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنے والی حکومت ان منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دیتی ہے یا یہ بھی تعطل کا شکار ہوجائیں گے؟


بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  

ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست