ایبٹ آباد شہر سے تعلق رکھنے والی منزہ حیات گذشتہ چھ سال سے خیبر پختونخوا میں ہاتھ سے بُنے کپڑے سے اپنی گھریلو صنعت چلا رہی ہیں۔
منزہ اس کاٹیج انڈسٹری میں منفرد دست کاری کر رہی ہیں۔ ان کے پاس درجنوں خواتین ہیں جو صبح سے رات گئے تک معاوضے پر خیبرپختونخوا میں تیار ہونے والے ہاتھ سے بُنے کپڑے سے انواع و اقسام کے بیگ تیار کرتی ہیں۔
منزہ نے آرٹ اینڈ ڈیزائن میں گریجویشن کرنے کے بعد ہزارہ یونیورسٹی، مانسہرہ سے ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بتایا: ’میں نے زمانہِ طالب علمی میں یہ سوچ رکھا تھا کہ میرے ننھیال اتمانزئی چارسدہ سے جو کپڑا تیار ہو کر افغانستان، وسطی ایشیا اور ترکی میں جاتا ہے، کیوں نہ اسے استعمال کرکے اس سے مصنوعات تیار کی جائیں۔ پھر میں اس کپڑے کو اپنے استعمال میں لایا اور اپنے علاقے کی کڑھائی کے ساتھ یکجا کیا اور ایک دو سال تجربات کیے، جس سے بالآخر ایک شکل بن گئی جو ایک بیگ تھا۔‘
منزہ اپنے ساتھ کام کرنے والی ہنر مند خواتین کے ساتھ مل کر کئی اقسام کے بیگ اور دوسری اشیا بناتی ہیں۔ ہر نئے دن کے ساتھ ان کے کام کو پذیرائی مل رہی ہے اور قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ تک ان کی تیار کردہ مصنوعات جاتی ہیں۔ آج منزہ کی کاٹیج انڈسٹری میں 25 خواتین معاوضے پر کام کرتی ہیں، جن سے انہیں مالی معاونت مل رہی ہے۔
منزہ نے اپنی کاٹیج انڈسٹری کے ساتھ ایک ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ بھی بنا رکھا ہے جہاں وہ مختلف حکومتی اور نجی تنظیموں کے تعاون سے خواتین اور بچیوں کو کورسز کروا رہی ہیں۔ ان دنوں حکومت کے ’کامیاب جوان ہنرمند پروگرام‘، جو مکمل طور پر فنڈڈ ہے، کے تحت وہ 25،25 طالبات پر مشتمل دو گروپس کو فینسی بیگ، پاؤچ بنانا، ہاتھ سے بُنائی، کڑھائی، کٹنگ، سٹچنگ اور مختلف طرح کے کورسز کروا رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’اکثر لڑکیاں کورس کرنے کے بعد یہیں میرے ساتھ کام کرنے لگتی ہیں، جبکہ کچھ اپنا کام کرنے لگتی ہیں۔‘
منزہ نے مزید بتایا: ’میں ہاتھ کی بُنائی کے ساتھ پیراشوٹ پر بھی کام کر رہی ہوں اور اس کے بھی مختلف بیگ بنتے ہیں۔‘
انہوں نے کرونا وائرس کے آغاز کے دنوں میں پی پی ایز کٹ بنانے کے یے بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ بقول منزہ: ’کرونا کے شروع میں ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی سامان کی کمی تھی تو میں نے اپنی فیکٹری کے دروازے کھول دیے اور ڈاکٹروں کے لیے گاؤن، ماسک، ٹوپیاں اور جوتوں کے کوور وغیرہ بنائے۔ آپ یقین کریں کہ میں نے اس مہینے میں دگنے تگنے پیسے کمائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کرونا میں ہمیں ہمارا بزنس نہیں تھا لیکن الحمد للہ ہم متاثر نہیں ہوئے۔‘