فلسطینی نوجوان ولید آئندہ ہفتے اپنی شادی کی تیاریاں کر رہا تھا، جب اس خاندان کے گھر کی چھت پر ’ایک دستک‘ ہوئی اور اسرائیلی میزائل نے فلیٹوں کے اُس حصے کی چھت پرایک گڑھا بنا دیا، جہاں ولید کی بہن حبہ اور ان کے چار بچے رہتے تھے۔
حبہ کا 13 سال بیٹا، جو پہلے ہی تین جنگیں دیکھ چکا ہے، وہ پہلا فرد تھا جس نے اسرائیل کی جانب سے فضائی کارروائی کی اس وارننگ کو بھانپ لیا۔
کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے دھماکے سے قبل ان کے پاس عمارت سے نکلنے کے لیے محض چند منٹ تھے، جس کے بعد علاقہ شعلوں میں گِھر گیا۔
غزہ کے اکثرنوجوانوں کی طرح 26 سالہ بیروزگار ولید کے پاس اتنی بھی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنا گھر حاصل کرسکے اور اس کی شادی صرف اس لیے ممکن ہو رہی تھی کہ اس کی بہن حبہ نے اپنے گھر کا ایک حصہ ولید کو دے دیا تھا۔
وہ عمارت اب ایک ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہے اور کنکریٹ کے درمیان کسی بچے کی نیلی اور زرد رنگ کی پلاسٹک کی کار اور سرخ رنگ کے ایک کھلونا بھالو کی باقیات اُس میں سے جھانکتی نظر آتی ہیں۔
عمارت کے جزوی تباہ شدہ دوسرے دروازے کے ساتھ کھڑے ولید نے بتایا: ’میں ایک ہفتے میں شادی کرنے والا تھا لیکن اب میں اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ مجھے یقین نہیں کہ میں شاید کبھی یہ سب کچھ کرسکوں۔‘
’میری بہن اور ان کے بچے بے گھر ہوچکے ہیں، ہم پانچوں نے اپنے رشتے داروں کے ہمراہ یہاں کیمپ لگایا ہوا ہے لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ یہ عمارت کتنے عرصے تک کھڑی رہ سکتی ہے۔‘
اس عمارت کے یہ حصے غزہ میں اسرائیل اور مسلح گروہوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران تباہ ہوئے۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ یہاں حماس کے سکیورٹی دفاتر قائم ہیں۔
غزہ کی جانب سے ایک راکٹ فائر ہونے کے بعد، جس کے نتیجے میں ایک گھر تباہ اور ایک بچے سمیت سات اسرائیلی زخمی ہوئے، اسرائیل نے گزشتہ ہفتے فضائی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا۔
جس کے بعد غزہ میں مسلح گروہوں نے بھی جنوبی اسرائیل میں بہت سے راکٹ داغے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایک اور جنگ ہونے والی ہے۔
عمارت کے اُس مخصوص بلاک میں چاہے جو کچھ بھی ہورہا تھا، لیکن وہاں بہت سے خاندان رہائش پذیر تھے، جو اب بے گھر اور پہلے سے زیادہ مجبورہیں۔
تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود ولید کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ ہفتے کو اسرائیلی سرحد پر ہونے والے مارچ میں شرکت نہیں کریں گے۔
اسرائیل کے ایک عشرے سے زائد محاصرے کی وجہ سے غزہ کی معاشی تباہی اور شدید بحران کے بعد تقریبا ایک سال پہلے اسرائیلی سرحد پر باقاعدہ احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔
غزہ کے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ انہیں آبائی علاقوں میں واپسی کا حق دیا جائے، جہاں سےانہیں 1940 میں زبردستی نکال دیا گیا تھا اور نتیجتا اسرائیل وجود میں آیا۔
اِس وقت غزہ کی 20 لاکھ آبادی کی نصف تعداد غربت کی لکیرسے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور گھروں میں ایک دن میں صرف چھ گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے جبکہ 97 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔
تاہم ولید کے اہل خانہ کے خیال میں اسرائیلی سرحد پر احتجاج بے بنیاد ہیں، جن کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ اسرائیل پر مظاہرین کے خلاف جنگی جرائم کا الزام عائد کرتی ہے کیونکہ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 260 فلسطینی ہلاک اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
تاہم اسرائیلی فوج یہ کہہ کر اپنی طاقت کے استعمال کا دفاع کرتی ہے کہ مظاہرین پُر تشدد ہیں، دھماکہ خیز مواد استعمال کرتے ہیں یا انہوں نے سرحدی باڑ کی خلاف ورزی کی کوششیں کیں۔
ولید کے بھائی احمد کے مطابق، ’اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ہم جیسے لوگوں کو مزید نقصان ہوا ہے، وہ جنہوں نے اپنی ٹانگیں گنوائیں یا وہ جو زخمی ہیں۔ یہ کوئی کامیابی نہیں۔‘
احمد نے مزید کہا: ’میں ان مارچوں میں شرکت پر لوگوں کو الزام نہیں دیتا، وہ ایک تلخ حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بچا کہ اپنے آپ کو سرحدی باڑوں پر پھینک دیا جائے۔‘
’لیکن میرے نزدیک اس سے صرف دکھ اور درد میں اضافہ ہوتا ہے، ہم خوشیاں حاصل نہیں کر رہے بلکہ مزید لوگوں کو کھو رہے ہیں۔‘
آخر میں احمد نے کہا، ’مجھے یہ مارچ اُس وقت پسند آئیں گے جب اس میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی، جب لوگ محبت اور اتحاد کے ساتھ ان میں شرکت کریں گے، تاکہ ہم دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔‘