کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی کے طالب علم نے اپنی جامعہ میں طالبات اور خواتین عملے کی سہولت کے لیے سینیٹری پیڈز کی وینڈنگ مشین لگوائی ہے۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ (آئی او بی ایم) میں بی بی اے کے طالب علم طٰحہ حسام مرزا نے ایک ’گو وینڈی‘ نامی سٹارٹ اپ اور بین الاقوامی کمپنی آلویز کے ساتھ مل کر اپنی جامعہ میں طالبات اور عملے کی خواتین کے لیے پیڈز نکالنے کی ایک مشین لگوائی ہے۔
مشین جامعہ کے سب سے بڑے گرلز واش روم میں نصب کی گئی ہے جہاں طٰحہ کو خود بھی اندر جانے کی اجازت نہیں۔ جب بھی انہیں اس مشین کی مرمت یا اس اسے متعلق کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو انتظامیہ سے خاص طور پر اجازت لی جاتی ہے، واش روم خالی کیا جاتا ہے اور طٰحہ ایک گارڈ کے ساتھ واش روم کے اندر جاتے ہیں۔
ڈھائی سال کی محنت اور بھاگ دوڑ کے بعد طٰحہ آخر کار سینیٹری پیڈز کی وینڈنگ مشین لگوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے طحہ نے بتایا کہ ’مجھے بالی ووڈ اداکار اکشے کمار کی فلم پیڈ مین نے کافی متاثر کیا تھا۔ مجھے خوشی ہوگی کہ میرے اس کام کی وجہ سے اگر مجھے بھی لوگ پیڈ مین کہیں۔‘
ان کے مطابق: ’مجھے گرلز واش روم میں پیڈز کی وینڈنگ مشین لگوانے کا خیال اس طرح سے آیا کہ میری ایک قریبی دوست کو ایک بار اچانک سے یونیورسٹی میں پیریڈز شروع ہو گئے۔ وہ بہت پریشان تھی کیوں کہ اس کے پاس پیڈ نہیں تھا۔ وہ اس دن یونیورسٹی میں ادھر ادھر بھاگ رہی تھی صرف ایک پیڈ کے لیے۔ وہ واش روم، کلاس روم اور گرلز کامن روم سب جگہ جا کر لڑکیوں سے پیڈ کا پوچھ رہی تھی۔‘
طحہ کا کہنا ہےکہ ’اسے آخر کار ایک پیڈ مل گیا لیکن مجھے اس وقت یہ محسوس ہوا کہ پیڈز یونیورسٹی میں با آسانی میسر کیوں نہیں؟ اس بارے میں انتظامیہ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں کسی جگہ ایک ڈاکٹر موجود ہیں جن کے پاس پیڈز مل جاتے ہیں لیکن یہ بات تمام طالبات کو معلوم نہیں۔‘
ان کے مطابق: ’وہاں سے مجھے یہ خیال آیا کہ یونیورسٹی میں پیڈز کی ایک وینڈنگ مشین ہونی چاہیے جس سے خواتین با اختیار ہوں اور وہ خود ہی کسی بھی وقت پیڈز نکال سکیں۔‘
اس مشین میں آلویز پیڈز کے پورے پیک موجود ہیں جو کہ دو سو روپے تک کا ہوتا ہے، جب کہ خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں ایمرجنسی کی صورت میں ایک ہی پیڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ پورا پیک نہیں خریدتیں۔
آئی او بی ایم کی ہی ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے یہ بہت فائدہ مند چیز ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ خواتین کو ایمرجنسی میں پیڈز کی ضروت پڑتی ہے اور ہمیں آگے پیچھے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے، لڑکیوں سے یا سٹاف سے پیڈ لینا پڑتا ہے۔ وہ بھی بہت ہی خاموشی سے چھپ چھپا کر۔ یہ وینڈنگ مشین ہمارے لیے بہت اچھی ہے۔ ہم اس میں سے خود ہی با آسانی پیڈز نکال سکتے ہیں۔‘
’البتہ ایک چیز ہے جو اس میں بہتر ہو سکتی ہے وہ یہ کہ علیحدہ سے ایک ایک پیڈز رکھے جائیں کیوں کہ لڑکیوں کو پورے پیک نہیں چاہیے ہوتے۔ ایمرجنسی کی صورت میں انہیں صرف ایک پیڈ چاہیے ہوتا ہے تو اس ایک پیڈ کے لیے ہم اتنے لوگوں سے مانگتے ہیں۔ تو اگر وہ یہاں ایک ایک پیڈز رکھیں گے تو ہم کبھی کبھی آکر اپنے لیے پیڈ لے سکتے ہیں۔‘