نو اپریل كی رات جب قومی اسمبلی كا اجلاس چوتھی مرتبہ ملتوی ہوا تو پارلیمنٹ ہاؤس سے چند فرلانگ دور اپنے دفتر میں بیٹھے ایک وكیل تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر كے خلاف عدالت كا دروازہ كھٹكھٹانے كی تیاری كر رہے تھے۔
یہ وكیل كوئی اور نہیں بلكہ مشہور زمانہ مولوی اقبال حیدر ایڈووكیٹ تھے، جن كی وجہ شہرت ایسے ہی دستوری امور اور مسائل پر ملک كی اعلیٰ عدلتوں میں درخواستیں دائر كرنا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو كو نو اپریل كی رات كا قصہ سناتے ہوئے انہوں نے كہا: ’جب آخری مرتبہ اجلاس ملتوی ہوا تو میں سمجھ گیا كہ انہوں نے ووٹنگ نہیں كرانی، بس میں نے اپنے سٹینو كو بلایا اور جلدی سے تین درخواستین ٹائپ كروا دیں۔‘
مولوی اقبال حیدر نے تقریباً آدھی رات كو پارلیمنٹ ہاؤس سے متصل سپریم كورٹ میں پٹیشن داخل كی، جس میں انہوں نے عدالت عظمی سے بذریعہ فوج سپریم كورٹ كے سات اپریل كے حكم پر عمل درآمد كی استدعا كی۔
’اسی دوران مجھے خبر ملی كہ اسلام آباد ہائی كورٹ بھی كھل گئی ہے، تو میں ادھر بھاگا اور وہاں بھی دو پٹیشنز داخل كر دیں۔‘
ان میں سے ایک پٹیشن فوجی قیادت میں مبینہ تبدیلی اور دوسری میں انہوں نے عمران خان اور چند سابق وزرا کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تھی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ان پرایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے عمران خان کے خلاف پٹیشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان کی درخواست کا غلط مطلب لیا ہے جس کے خلاف وہ اپیل کا ارادہ رکھتے ہیں۔
62 سالہ مولوی اقبال حیدر، جن كا تعلق كراچی سے ہے اور وہیں بحیثیت وكیل پریكٹس كرتے ہیں، آٹھ اپریل كو شہر اقتدار آپہنچے تھے، اور آتے ہی سپریم كورٹ میں توہین عدالت كی پٹیشن دائر كر دی۔
قومی اسمبلی كے ڈپٹی سپیكر قاسم سوری نے سابق وزیر اعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی تحریک تین اپریل كو مسترد كر دی تھی، جسے سپریم كورٹ میں چیلنج كیا گیا تھا۔
اعلیٰ عدالت نے سات اپریل كے فیصلے میں تحریک پر نو اپریل (ہفتے) كو ووٹنگ كروانے كا حكم دیا تھا، تاہم ہفتے كو قومی اسمبلی كا اجلاس آدھی رات تک جاری رہا، اور پورے دن كی كارروائی كے دوران چار وقفے ہوئے۔ بظاہر لگتا تھا کہ حکومت کا ووٹنگ کروانے کا ارادہ نہیں۔
مولوی اقبال حیدر نے سپریم كورٹ كے فیصلے كے فوراً بعد اسلام آباد كا رخ كیا، اور آٹھ اپریل كو سپریم كورٹ میں درخواست داغ دی۔
’تحریک عدم اعتماد سے متعلق خبریں دیكھ كر میں اسلام آباد آنے كو بیتاب ہو رہا تھا، اور آخر آہی گیا۔‘
كس كس كے خلاف پٹیشنز دائر كیں؟
مولوی اقبال حیدر سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آئے جب انہوں نے 1998 میں اس وقت كے وزیر اعظم نواز شریف كے خلاف سپریم كورٹ میں توہین عدالت كی درخواست دی۔
اسی درخواست كے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف كو 1999 میں عہدے سے برطرفی كے بعد سپریم كورٹ میں پیش كیا گیا تھا۔
سال 1999 میں نواز شریف حكومت كا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے پر مولوی اقبال حیدر نے 2000 میں ’پرویز مشرف حمایت تحریک‘كے پلیٹ فارم سے آمر کے پروگراموں کی وکالت شروع كر دی۔
مولوی اقبال حیدر كا كہنا تھا كہ انہی كی ایک درخواست كے نتیجے میں سپریم كورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف كو تین سال تک عنان اقتدار میں رہنے كی اجازت دی تھی۔
تاہم 2009 میں پرویز مشرف پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھا تو مولوی اقبال حیدر نے اپنی ’مشرف حمایت تحریک‘ کا نام بدل كر ’عوامی حمایت تحریک‘ كر دیا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حكومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے سابق فوجی صدر کے خلاف سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی كراچی آمد پر 12 مئی 2007 کو ہونے والے قتل عام کے بعد بھی اقبال حیدر نے جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف كراچی كی مقامی عدالت میں درخواست دی كہ انہیں سانحے كا ذمہ دار قرار دیا جائے۔
مولوی اقبال حیدر كی اس حرکت سے ملک بھر كی وکلا برادری ان سے برہم ہوئی، اور عدالت كے احاطے میں ان كے داخلے پر پابندی لگا دی گئی، اور ان كی غیر حاضری كے باعث جسٹس افتخار چوہدری كے خلاف درخواست خارج كر دی گئی تھی۔
مولوی اقبال حیدر كہتے ہیں كہ انہوں نے سابق وزیر اعظم مرحومہ بےنظیر بھٹو كے خلاف بھی عدالت سے رجوع كیا تھا، جبكہ متحدہ قومی موومنٹ لندن كے سربراہ الطاف حسین بھی ان كے اس کارروائیوں كا نشانہ بن چكے ہیں۔
ایك وقت میں مولوی اقبال حیدر كی سپریم كورٹ كی عمارت میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، جسے بعد میں سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے ختم كیا تھا۔
اسلام آباد میں پریكٹس كرنے والے وكیل شاہجہان خان كا كہنا تھا كہ ’مولوی اقبال حیدر صاحب كسی بھی قسم كی پٹیشن داخل كرنے كے لیے ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔‘
مولوی اقبال حیدر مختلف حكومتوں، وزرا اعظموں، ریاستی اداروں، سیاسی شخصیات اور حتی كہ صحافیوں كے خلاف بھی ملک كی مختلف عدالتوں میں درخواستیں داخل كر چكے ہیں۔
ایسی پٹیشنز كیوں كرتے ہیں؟
اس سوال كے جواب میں كہ آپ ایسی درخواستیں عدالتوں میں كیوں جمع كرواتے ہیں؟ مولوی اقبال حیدر نے كہا: ’میں تو دستور كی بالادستی كے لیے ہی ایسا كرتا ہوں۔‘
تاہم ان كے متعلق عام شک یہی ہے كہ ایسا وہ كسی كے مخصوص اشارے پر كرتے ہیں۔
شاہجہان ایڈووكیٹ كا كہنا تھا كہ ’مولوی اقبال حیدر کے بظاہر طاقتور حلقوں میں كافی تعلقات ہیں، تاہم ان كی پٹیشنز كے پیچھے كسی مخصوص طاقت كی موجودگی كا كوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔‘
اسلام آباد میں پریكٹس كرنے والے ایک دوسرے وكیل كا كہنا تھا: ’مولوی اقبال حیدر كو پوشیدہ طاقتوں كی آشیر باد حاصل ہے، جنہیں دیكھا یا سنا نہیں جا سكتا، صرف محسوس كیا جا سكتا ہے۔‘
تاہم مولوی اقبال حیدر كا كہنا تھا كہ انہیں سیاسی پارٹیاں اور ادارے لفٹ نہیں دیتے اسی لیے وہ دستوری امور پر درخواستیں دیتے ہیں۔
’میں ہمیشہ موٹا كیس دائر كرتا ہوں، اور یہ موجودہ كیس بھی موٹا ہی تھا۔‘
انہوں نے اپنے كسی ریاستی ادارے سے متعلق كی اطلاعات اور افواہوں كو رد كرتے ہوئے كہا: 'مجھے تو فوج بھی لفٹ نہیں دیتی، یہ الزام مجھ پر كیسے لگایا جا سكتا ہے۔'
شاہجہان ایڈووكیٹ كا كہنا تھا كہ مولوی اقبال حیدر نہایت قابل وكیل ہیں، اور شاید ان كی درخواستیں داخل كرنے كی عادت كی یہ بھی ایک وجہ ہے۔
انہوں نے كہا: ’مولوی اقبال حیدر كو پاكستان كا دستور جیسے زبانی یاد ہے، اور دستوری آرٹیكلز تو ان كی انگلیوں پر ہوتے ہیں۔‘
آپ مولوی كیسے بنے؟
مولوی اقبال حیدر مذہبی سكالر نہیں ہیں، نہ انہوں نے دینی تعلیم حاصل كر ركھی ہے، اسی لیے ان كے نام كے ساتھ ’مولوی‘ كا لاحقہ اكثر لوگوں كے لیے حیرانی كا باعث بنتا ہے۔
تاہم اس كے پیچھے بھی ایک كہانی ہے، جو كچھ یوں ہے كہ جنرل (ر) پرویز مشرف كے دور میں انہوں نے حسب معمول ایک پٹیشن دائر كر ركھی تھی۔
درخواست كی سماعت جسٹس سعید الزمان صدیقی کر رہے تھے، اور كمرہ عدالت میں سابق وفاقی وزیر قانون اور پاكستان پیپلز پارٹی كے رہنما اقبال حیدر بھی موجود تھے۔
مولوی اقبال حیدر نے یہ قصہ سناتے ہوئے كہا كہ ہم دونوں اقبال حیدر تھے اور جج صاحب كو دونوں میں كنفیوژن ہو رہی تھی، اس لیے انہوں نے مجھے مولوی اقبال حیدر كہہ كر پكارنا شروع كر دیا۔
’جج صاحب نے مجھے میری داڑھی كی وجہ سے مولوی كہا، اقبال حیدر مرحوم كی داڑھی نہیں تھی۔‘
وہ دن اور یہ دن ملک بھر كی عدالتوں میں درخواستیں داخل كرنے والے اقبال حیدر كا نام مولوی اقبال حیدر پڑ گیا۔
مولوی اقبال حیدر ایڈووکیٹ نے 5 اپریل کور سابق وزیر اعظم عمران خان، فواد چوہدری، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کو غدار قرار دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سب نے ایک جعلی خط پر آئین کو پامال کیا۔
مولوی اقبال حیدر جیسے اور کئی وکیل بھی ہیں جو وقتا فوقتا مختلف نوعیت کی پٹیشنیں عدالتوں میں دائر کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔