صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 13 اپریل کی رات منعقد ہونے والا پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ بخیر وعافیت انجام پایا، تاہم جو مناظر دیکھنے کو ملے انہیں دیکھتے ہوئے یہ جلسہ پاکستان تحریک انصاف کے پچھلے جلسوں اور دھرنوں سے کئی لحاظ سےمختلف نوعیت کا رہا۔
اس جلسے میں شرکت تک عمران خان وزیر اعظم کی کرسی سے اتر چکے تھے، اور حیرت انگیز طور پر ان کے سپورٹرز میں پہلے سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔
عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی میں شدید اضافہ ہونے کے بعد عوام حتی کہ ان کے سپورٹرز میں بھی ایک غصہ پایا جارہا تھا، اور ہر شخص اس وقت کو کوستا ہوا سنائی دیتا تھا جب اس نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ اگر آئندہ انتخابات وقت پر ہوں گے تو ان کو عوام کبھی بھی دوبارہ موقع نہیں دیں گے۔
تاہم اس کے برعکس، جیسے ہی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلی اور انہوں نے اس کو بیرونی سازش قراردیا ، ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں مل رہا ہے، اور یہی گذشتہ شب کے جلسے میں دکھائی دیا۔
جلسے میں شرکت کرنے والوں کی وجہ سے پشاور شہر کی تمام شاہراہیں رات ایک بجے تک بند رہیں، اور لوگ جگہ جگہ سڑکوں پر ہی ٹولے بنائے نعرے لگاتے رہے۔
حتی کہ جلسہ گاہ میں جگہ نہ ملنے پر لوگ بل بورڈز اور آس پاس کی مارکیٹوں کی چھتوں پر بیٹھے تھے۔ جلسہ گاہ کے گراؤنڈ سے باہر بھی اتنا ہی رش تھا جو گراؤنڈ کے اندر تھا۔
جلسے میں بدنظمی
جہاں ایک جانب عمران خان نے عوام کو پکارا وہیں یہ چاہیے تھا کہ جلسہ گاہ میں انتظامات بھی اتنے ہی اچھے ہوتے۔ تاہم دیکھنے میں آیا کہ میڈیا کے لیے جو کنٹینر رکھا گیا تھا وہاں بھی جلسے کے شرکا موجود تھے جن کو منع کرنے والا اور روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا۔
ایک وقت میں وہاں لوگوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ کسی حادثے کے رونما ہونے کا خوف آنے لگا۔
جو لوگ اندر چلے گئے تھے انہیں باہر جانے کے لیے راستہ نہیں مل رہا تھا اور جو باہر تھے انہیں اندر جانے کی راہ نہیں مل رہی تھی۔
خواتین کے لیے مخصوص جگہ کے پاس جو خاردار تار بچھائی گئی تھی، تماشائی اس کو پھلانگنے لگے اورمنتظمین کی مسلسل درخواستوں کے باوجود لوگ ان التجاؤں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خلاف ورزی کرتے رہے۔
اسی اثنا میں اچانک پولیس نے لوگوں پر چڑھائی کی اور ایک بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس نے لوگوں کے سروں اور جسم پر ایسے ڈنڈے برسانا شروع کیے کہ کسی کا ہاتھ تو کسی کا سر زخمی ہو گیا۔
کئی لوگ خاردار تاروں میں گھسیٹے گئے اور زخمی ہوئے۔
اس کے علاوہ کچھ لوگ گرمی کی شدت، پیاس اور بھگدڑ کی وجہ سے بے ہوش بھی ہوئے جنہیں پاس کھڑی ایمبولینس میں ڈال کر ابتدائی طبی امداد دی گئی۔
بعض خواتین نے جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے لوگوں کی جانب سے بدتمیزی کی شکایت کی تاہم پولیس اس تمام صورتحال میں بے بس نظر آتی رہی۔
عمران خان کی تقریر کے وقت عوام کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ خود پی ٹی آئی کے کارکنان کا بھی یہی کہنا تھا کہ انتظامات صحیح نہیں تھے اور فیملیز خصوصاً خواتین کے لیے ایسی جگہوں پر آنا خود کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے منتطمین اور حکومتی ارکان کے حوالے سے کہا کہ جب وہ لوگوں کو جلسے میں شرکت کا کہتے ہیں تو انہیں انتظامات بھی اسی طرح کرنے چاہیں۔
عوامی تاثرات
جلسے میں شرکت کرنے والوں کا جوش وجذبہ عروج پر تھا اور ان کا یہ کہنا تھا کہ انہیں مہنگائی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن عمران خان دوبارہ حکومت سنبھال لیں۔
پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں تقریباً ہر ایک کارکن اور سپورٹر کی زبان پر ایک ہی بات تھی: ’مہنگائی قبول ہے لیکن غلامی قبول نہیں۔‘
شرکا کے مطابق اگر یہ رمضان نہ ہوتا تو لوگوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوتی۔
وہاں موجود چند پی ٹی آئی حامیوں سے جب عمران خان کی حکومت اور آنے والے وقت سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عمران خان کے لیے تباہ و برباد ہونے کو بھی تیار ہیں۔‘
خیبر پختونخوا پچھلی ایک دھائی سے تحریک انصاف کا مضبوط گڑھ بنا ہوا ہے۔ چونکہ یہ حکومت کے جانے کے بعد پہلا احتجاجی جلسہ تھا تو پارٹی قیادت کے لیے اس شہر کا انتخاب قدرتی عمل تھا۔ وزیراعلی محمود خان اور سابق گورنر شاہ فرمان دن میں جلسے کے انتظامات کے جائزے کے لیے دورہ کر چکے تھے۔
قومی اسمبلی سے استعفوں کے اعلان کے بعد اس سیاسی جماعت کے پاس اب نئی حکومت پر عام انتخابات کروانے کے لیے دباؤ بڑھانے کے لیے سڑکوں پر آنے کا ہی آپشن بچا ہے۔ پارٹی کے احتجاج سے متعلق اعلانات سے محسوس ہوتا ہے کہ اگر قیادت کا بس چلے تو روزانہ کہیں نہ کہیں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے۔ البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر پرامن ہیں۔