رمضان میں ٹی وی پر سحر و افطار کے اوقات میں نشر کی جانے والی نشریات گھروالوں کو ایک ساتھ بیٹھنے اور وقت گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، مگر ان کو سجانے اور سنوارنے کے لیے کتنی محنت لگتی ہے اس سے لوگ کم ہی واقف ہیں۔
یہ ٹرانسمشنز گذشتہ کئی سالوں سے ماہ رمضان کا ایک اہم حصہ بن چکی ہیں۔ سحر و افطار سے قبل ان پروگرامز میں ہونے والے تقریری مقابلے، نعت، کسوٹی، سوالات اور کھانا پکانے کے مقابلے روزہ رکھنے والوں یا روزے داروں کا دل لبھاتے ہیں اور انہیں تفریح فراہم کرتے ہیں۔
ان پروگرامز میں بڑی تعداد میں تحفے اور تحائف بھی بانٹے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر ناظرین کا دل کرتا ہے کہ وہ بھی ان ٹرانسمشنز کا حصہ بنیں۔ البتہ کافی ساری درخواستوں اور لمبی قطاروں کے باعث کبھی کبھار ہی ان میں حصہ لینے کا موقعہ ملتا ہے۔
یہ رمضان ٹرانسمشنز انتہائی شاندار اور عالیشان طریقے سے سجی ہوئی ہوتی ہیں۔ اینکرز کے لباس سے لے کر صوفے، کرسیاں، پردے اور لائٹیں، تقریباً ہر چیز کا اپنا ہی جاہ و جلوہ ہوتا ہے۔
ان ٹرانسمشنز کے سیٹس کو چار چاند لگانے کے لیے اکثر نایاب نسل کے پرندے، مور، سفید خرگوش، تالاب میں مچھلیاں اور ناجانے کیا کچھ موجود ہوتا ہے تاکہ ٹی وی دیکھنے والے اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔
البتہ یہ سب کچھ اس سیٹ کا حصہ ہوتا ہے جس کی تیاری رمضان سے کئی ماہ قبل شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال ایکسپریس ٹی وی کی رمضان ٹرانسمشن کے سیٹ کی ہے جس کی تعمیر تقریباً چھ ماہ پہلے سے شروع ہوگئی تھی۔
ایک ایکڑ کی زمین پر بنائے گئے اس سیٹ پر کراچی کی تاریخی عمارت ایمپریس مارکیٹ اور صدر کے مشہور ایرانی کیفے کی نقل بھی بنائی گئی ہے۔
اس ٹرانسمشن کی میزبان رابعہ انعم نے جو کہ صحافی بھی رہ چکی ہیں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میری رمضان ٹرانسمشن کا سیٹ نہیں محلہ ہے۔ ہم نے یہاں نئے سرے سے ایک محلہ آباد کیا ہے جہاں حسین عمارتیں، ایک ہرا بھرا صحن، ایمپریس مارکیٹ سے متاثر ایکسپریس مارکیٹ، تین کچن، سحر و افطار کے لیے ایک عالیشان میز اور ہمارے محلے کا اپنا ایرانی کیفے موجود ہے جہاں بیٹھ کر ہم اپنے خاص مہمانوں سے گپ شپ کرتے ہیں۔‘
رابعہ انعم نے کہا، ’یہ تمام خوبصورت عمارتیں لکڑی کی بنی ہوئی ہیں جو کہ انتہائی مضبوط ہیں۔ یہ پاکستان کی پہلی رمضان ٹرانسمشن ہے جو کہ پورے 30 تیس دن کھلے آسمان تلے ہو رہی ہے۔ ایک ایکٹر کے رقبے پر پھیلا یہ سیٹ، میری بڑی بھاگ دوڑ کرواتا ہے۔ جب میری بس ہوجائے تو میں سینڈلز کی جگہ سنیکرز پہن لیتی ہوں تاکہ آسانی سے بھاگ دوڑ سکوں۔‘
رابعہ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ایکسپریس ٹی وی نے ناصرف ایک خاتون بلکہ ایک صحافی کو پوری رمضان ٹرانسمشن کی میزبانی کرنے کی انتہائی اہم ذمہ داری تھی۔
ان کے خیال میں عام طور پر مردوں یا کچھ مخصوص افراد کو ہی ان ٹرانسمشنز کے لیے منتخب کیا جاتا رہا ہے مگر اب یہ رجحان تبدیل ہورہا ہے۔
اس رمضان ٹرانسمشن میں شریک مہمان خصوصی اور سینیئر اداکار جاوید شیخ نے بتایا: ’مجھے ایکسپریس کی رمضان ٹرانسمشن میں آ کر بہت خوشی ہوئی۔ یہاں کا سیٹ دیکھ کر مجھے پڑوسی ملک کے فلم سٹی کی یاد آگئی جو میلوں دور تک پھیلا ہوا ہوتا تھا اور اسی طرح سے لگتا تھا جیسے حقیقت میں کوئی شہر آباد ہو۔‘
پاکسان میں گذشتہ کئی برسوں میں ان خصوصی ٹرانسمیشنز پر کڑی تنقید کی بعد اس سال بظاہر کم چینلوں نے خصوصی پرورگراموں کا انتظام کیا ہے۔