نئے وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں ایک تاثر ہے کہ وہ انتظامی صلاحیتوں سے مالامال ہیں جس کی ایک واضح مثال لاہور کی دی جاتی ہے۔ پنجاب نے باالعموم اور لاہور نے باالخصوص ان کے دور میں ’شاندار‘ ترقی کی ہے۔
اب وہ اسلام آباد کی کرسی پر براجمان ہیں۔ انہوں نے آتے ہی پشاور موڑ سے نئے ایئرپورٹ کے میٹرو ٹریک کو جو کئی ماہ سے مکمل پڑا ہے، فعال کرنے کا حکم اپنے آفس جانے کے پہلے ہی روز دیا جس سے اندازہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کم سے کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔
پشاور موڑ سے نئے ائیر پورٹ تک میٹرو بس چلانے کا منصوبہ نواز شریف دور میں شروع ہوا تھا جس پر 80 فیصد کام مکمل تھا مگر جو 20 فیصد کام رہ گیا تھا وہ عمران خان کے ساڑھے تین سال میں مکمل نہ ہو سکا، حالانکہ نئے ائیر پورٹ کو فنکشنل ہوئے چار سال کا عرصہ ہو چکا ہے مگر ابھی تک وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں جس کی وجہ سے مسافروں کے ساتھ ساتھ ائیر پورٹ پر کام کرنے والے سٹاف کو آنے جانے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔
نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو جڑواں شہروں کے لیے ایک ماس ٹرانزٹ سسٹم پر کام کر رہے تھے۔ صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں راولپنڈی صدر سے اسلام آباد سیکرٹریٹ تک میٹرو بس کا منصوبہ مکمل کیا گیا، جس سے جڑواں شہروں کے وسطی علاقوں میں رہنے والے رہائشیوں کا ایک بنیادی مسئلہ حل ہوا تاہم گذشتہ 20 سالوں میں شہر کافی پھیل چکا ہے۔ ضروری ہے کہ اب دوبارہ ماس ٹرانزٹ سسٹم پر کام شروع کیا جائے۔
عمران خان کے دور میں راولپنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ بھی تنازع کا شکار ہو کر رہ گیا، تاہم مارگلہ ایونیو کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جو ایم ون موٹر وے سے سترہ میل تک 35 کلومیٹر طویل ہے اور اس پر ایف ڈبلیو او کام کر رہا ہے۔
یہ منصوبہ 1960 میں بننے والے اسلام آباد ماسٹر پلان کا حصہ تھا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں میں اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔
اس منصوبے پر 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کام شروع کیا تھا لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی تھی۔ عمران خان دور میں اسلام آباد کے لیے جو بڑے منصوبے شروع کیے گئے تھے ان میں ٹینتھ ایونیو بھی شامل ہے جسے لئی ایکسپریس کے ذریعے جی ٹی روڈ تک ملایا جانا ہے۔
گذشتہ 20 سالوں میں اسلام آباد کا سب سے زیادہ پھیلاؤ اسلام آباد ایکسپریس وے کے ارد گرد روات تک ہوا ہے۔ اب اسلام آباد سے بڑا شہر بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے اور کورال چوک سے ٹی چوک کے ارد گرد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو ملا کر بنتا ہے۔
دوسری جانب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی وسعت فتح جنگ اور ٹیکسلا تک ہو چکی ہے جسے گریٹر اسلام آباد کہا جا سکتا ہے۔
نواز شریف جب برسر اقتدار آئے تو انہوں نے زیرو پوائنٹ سے روات ٹی چوک تک سگنل فری ایکسپریس وے کا منصوبہ شروع کیا تھا لیکن ان کے دور میں یہ منصوبہ کورال چوک جو پرانے ایئر پورٹ کے قریب ہے وہاں تک ہی مکمل ہوا تھا۔ کورال چوک سے نیول اینکریج تک ٹریفک کا شدید رش رہتا ہے۔
عمران خان دور میں اسلام آباد ایکسپریس وے کی کشادگی کے لیے کورنگ پل اور پی ڈبلیو ڈی انڈر پاس کا کام شروع کیا گیا۔ پی ڈبلیو ڈی انڈر پاس منصوبہ بھی سابق حکومت کی بد انتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فائنل کارپٹنگ کے بغیر ہی منصوبے کا افتتاح کر دیا گیا اور اس کے بعد سے متعلقہ تعمیراتی کمپنی فیلڈ سے غائب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی حال کورنگ پل کا بھی ہے جسے چھ ماہ پہلے مکمل ہو جانا تھا مگر تعمیراتی مقام پر کوئی سرگرمی نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد ایکسپریس وے پر رش معمول کی بات بن چکی ہے۔
لاہور میں سی پیک کے تحت اورنج لائن منصوبہ شروع کیا گیا تو اس وقت کی نواز حکومت نے اسلام آباد کے لیے چین سے ایک ماس ٹرانزٹ سسٹم پر بات کی تھی۔ اسلام آباد ایکسپریس وے پر روات سے فیصل مسجد اور روات سے ٹیکسلا تک مونو ریل چلائی جانی تھی۔
اس کے لیے ابتدائی کام بھی ہوا تھا لیکن بعد میں حکومت بدل جانے کی وجہ سے یہ کام رک گیا تھا۔
اکتوبر2020 میں چین کی سول انجنئیرنگ کارپوریشن نے اسلام آباد راولپنڈی کے لیے حکومت پاکستان کو 100 کلومیٹر طویل ایک ماس ٹرانزٹ ریل کا منصوبہ پیش کیا جس پر لاگت کا تخمینہ 350 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔
یہ منصوبہ نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ تمام ٹرینیں بجلی پر چلیں گی جس سے شہر میں آلودگی میں کمی ہو گی۔
منصوبے کے تحت روات، فیصل مسجد، بہارہ کہو، صدر، سیکرٹریٹ، ٹیکسلا اور نئے ائیرپورٹ تک ایک وسیع نیٹ ورک بنایا جائے گا۔ صدر سے سیکرٹریٹ تک موجودہ میٹرو بس ٹریک کو بھی ٹرین ٹریک سے بدل دیا جائے گا۔
لیکن سابق حکومت میں جس طرح سی پیک کے پہلے سے چلنے والے منصوبے سست روی کا شکار ہیں اور اس وجہ سے دونوں حکومتوں میں عدم اعتماد کی ایک کیفیت بھی پائی جاتی ہے حتیٰ کہ پشاور سے کراچی تک آٹھ ارب ڈالر کا ایم ایل ون لائن کا منصوبہ جس پر دونوں جانب سے پیپر ورک مکمل کر لیا گیا تھا اور گذشتہ سال کے وسط میں چینی صدر نے آکر اس کا افتتاح کرنا تھا وہ بھی دونوں حکومتوں میں عدم اعتماد کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکا تھا۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ میاں شہباز شریف جن کے کام کو چینی حکام کافی سراہتے ہیں وہ اپنا پہلا دورہ چین کا کریں گے۔ شہباز شریف اگر چین سے اسلام آباد کے شہریوں کے لیے ماس ٹرانزٹ سسٹم کی خوشخبری لے آئیں تو یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا۔
سی ڈی اے کے ترجمان آصف علی رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پشاور موڑ سے نئے ائیرپورٹ تک میٹرو بس وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ہفتے کے روز سے شروع کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے روات سے فیصل مسجد تک بھی میٹرو چلانے کے لیے فزی بیلٹی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد شہر چونکہ کافی پھیل چکا ہے اس لیے اب ایک ماس ٹرانزٹ سسٹم کی اشد ضرورت ہے جس پر سی ڈی اے کام کر رہا ہے۔ ابتدائی طور پر جلد ہی روات سے فیصل مسجد اور بہارہ کہو سے بلیو ایریا تک بسیں چلائی جائیں گی۔