پاکستان میں مئی اور جون کے مہینے میں شدید گرمی پڑتی ہے اور ہر سال پہلے سے زیادہ گرمی ہونے کی وجہ سے لوگوں کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خصوصاً کراچی میں جاری ہیٹ ویو کے دوران پانی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام سخت پریشان ہیں۔ کراچی کے کئی پسماندہ علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں نہ تو فریج ہے اور نہ ہی اے سی۔ اگر سخت گرمی میں نلوں سے پانی آنا اور پنکھے چلنا بند ہوجائیں تو اپنا گھر بھی تندور کی مانند لگتا ہے۔ ایسے میں کراچی کے غریب عوام کا سہارا ہے برف۔
برف وہ چیز ہے، جس کے بغیر کراچی کے گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے افراد کا گزارا نہیں۔ ٹھنڈا پانی پینے سے لے کر نہانے تک کمرشل برف کا استعمال روز کیا جاتا ہے۔
ایک عام آدمی کو فریج ہونے یا نہ ہونے کے باوجود مہینے میں ڈیڑھ ہزار روپے کی برف خریدنی پڑھ جاتی ہے۔ بعض افراد ایک دن میں تین سے چار مرتبہ برف خریدتے ہیں۔ برف کی اس قدر مانگ کی وجہ سے کراچی میں کمرشل استعمال کے لیے فیکٹریاں آٹھ ہزار سے نو ہزار ٹن برف بناتی ہیں۔ برف کے ہر بلاک کا وزن 125 کلوگرام ہوتا ہے اور اس میں 100 لیٹر میٹھا پانی استعمال ہوتا ہے۔ ایک بلاک کی قیمت 250 روپے لگائی جاتی ہے اور فیکٹری سے برف ڈیپو پر سپلائی ہونے کے بعد اسے ٹکڑوں میں بیچا جاتا ہے، جہاں یہ دس روپے سے لے کر 100 روپے تک کی قیمت میں آسانی سے مل جاتی ہے۔
کراچی میں اس سال بھی ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں چار سال پہلے (2015 میں) 50 سال کی بدترین ہیٹ ویو آئی تھی جس کی وجہ سے کراچی میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور 40 ہزار افراد گرمی کی وجہ سے ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوئے تھے۔