حالیہ دنوں میں ہندو تہواروں کے دوران ملک بھر میں پرتشدد واقعات اور مسلمان اقلیتی برادری کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ایک سلسلے کے بعد بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں مذہبی اجتماعات اور لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
یہ پابندی سخت گیر ہندو رہنما اور ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عائد کی ہے، جنہوں نے پولیس کو مذہبی رہنماؤں سے بات کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے چار مئی تک پولیس اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دیں۔
آدتیہ ناتھ نے پولیس کو زیادہ محتاط رہنے کا حکم دیا کیونکہ آئندہ چند دنوں میں کئی بڑے تہواروں کی آمد ہے جن میں مسلمانوں کی عید الفطر اور ہندوؤں کا اکشے تریتیا تہوار شامل ہے۔ دونوں تہوار ممکنہ طور پر اگلے مہینے ایک ہی دن (3 مئی کو) ہو سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی ہدایت کی کہ مذہبی پروگرام صرف مقررہ جگہوں پر ہی منعقد کیے جائیں۔ انہوں نے پولیس سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سڑکوں پر ٹریفک میں خلل ڈالنے کے واقعات رونما نہ ہوں۔
وزیراعلیٰ کے دفتر سے ہندی زبان میں جاری کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ’کوئی شبھ یاترا یا مذہبی جلوس بغیر اجازت کے نہیں نکالا جانا چاہیے۔ اجازت سے پہلے امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے بارے میں منتظم سے حلف نامے لیے جانے چاہییں۔‘
ٹویٹ میں مزید کہا گیا: ’صرف ان مذہبی جلوسوں کو اجازت دی جانی چاہیے جو روایتی طور پر نکلتے ہوں۔ نئے جلوسوں کو غیر ضروری اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔‘
ایک اور پوسٹ میں وزیراعلیٰ کے بیان کا حوالہ دیا گیا کہ ’ہر کسی کو اپنی عبادت کے طریقہ کار پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ اس کے لیے مائیکروفون استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ آواز (مذہبی مجلس کے) احاطے سے باہر نہ جائے۔ دوسرے لوگوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ نئے مقامات پر مائیک کی اجازت نہ دیں۔‘
یہ احکامات بھارت کے کئی حصوں میں حالیہ ہندو تہواروں کے دوران تشدد کے متعدد واقعات کے پس منظر میں دیے گئے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی کئی ویڈیوز میں ہندو ہجوم کو کیسری رومال پہنے ہوئے اور بعض صورتوں میں لاٹھیاں اور تلواریں اٹھائے ہوئے مسلم اکثریتی محلوں میں جلوس نکالتے، گھروں اور مساجد کے باہر اشتعال انگیز گانے بجاتے اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تشدد کا تازہ ترین واقعہ ایسٹر ویک اینڈ پر دارالحکومت نئی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں پیش آیا جہاں جھڑپیں اس وقت پھوٹ پڑیں جب ہندو دیوتا ہنومان کے یوم پیدائش یعنی ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس میں شریک ہندو ہجوم نے مبینہ طور پر مسجد پر کیسری جھنڈا لہرانے کی کوشش کی۔ کیسری یا زعفرانی رنگ کو بھارت میں ہندو قوم پرست گروپوں سے جوڑا جاتا ہے۔
ہجوم میں شامل افراد کو تلواریں اور بندوقیں لہراتے اور ہندو مذہبی بھجن پر رقص کرتے دیکھا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے کی درج کی گئی پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جلوس ’پرامن طریقے سے‘ جاری تھا لیکن جب یہ مسجد کے قریب پہنچا تو محمد انصار نامی ایک شخص نے چار پانچ لوگوں کے ساتھ جھگڑا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے ہنگامہ ہوا اور دونوں طرف کے لوگوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد انصار ہفتے کے روز ہونے والے تشدد کا مرکزی ملزم تھا لیکن شمالی دہلی پولیس کے خصوصی کمشنر دیپندر پاٹھک نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ اب تک کی تحقیقات سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ تشدد کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
دہلی کی حکمراں ’عام آدمی پارٹی‘ (اے اے پی) اور مرکز میں حکومت کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے محمد انصار کی سیاسی وابستگیوں پر تنقید کی ہے جب کہ دونوں نے ان کے ساتھ کسی بھی تعلق سے انکار کیا ہے۔
اس سے قبل تشدد کے کئی واقعات ریکارڈ کیے گئے جب رام نومی کے ہندو تہوار کے موقع پر جلوس نکالے گئے، ہجوم نے نفرت انگیز تقاریر کرتے ہوئے مسلمانوں کی املاک پر حملے کیے۔
10 اپریل کو مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، گجرات اور مغربی بنگال سمیت کم از کم پانچ ریاستوں میں پرتشدد واقعات میں دو افراد ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
بدھ کو دہلی کی میونسپل کارپوریشن، جو حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر انتظام کام کرتی ہے، نے جہانگیر پوری کے شورش زدہ علاقے میں انسداد تجاوزات مہم کا شیڈول بنایا ہے جہاں چار سو سے زائد پولیس اہلکاروں کو مہم کے دوران کسی بھی تشدد کے پیش نظر الرٹ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
© The Independent