صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں سیدو بابا مسجد فن تعمیر کا شاہکار ہے جس میں لگایا جانے والا سنگ مرمر جے پور بھارت سے منگوایا گیا تھا۔
یہ وہی سنگ مرمر ہے جو تاج محل کی تعمیر میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مسجد کے فرش کو گرمیوں میں ٹھںڈا رکھنے کے لیے اس میں خاص قسم کا پتھر استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے گرم موسم میں نمازی ٹھنڈے فرش پر آرام بھی کرتے ہیں۔
اس مسجد میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے بھی جگہ بنائی گئی ہے۔
مسجد کے قریب پانی کا چشمہ بھی ہے جہاں لوگ وضو کرتے ہیں اور پانی بھی وہیں سے پیتے ہیں لیکن وہ رنگین مچلیاں جو اسی چشمے میں موجود ہوا کرتی تھیں اب وہ نہیں رہیں۔
مسجد کے نام اور تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر حافظ عطاالرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیدو بابا کا اپنا نام عبدالغفور بابا تھا، جن کا تعلق مہمند قیبلے کی ذیلی شاخ صافی سے تھا۔
’سیدو بابا کے انتقال کے بعد سوات اندرونی تنازعات اور لاقانونیت میں جکڑا رہا اور سوات کی ناگفتہ اور غیریقینی صورتحال 1917 تک جاری ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’سید عبدالجبار شاہ کی ڈیڑھ سالہ مختصر حکومت کے بعد ستمبر 1917 میں اخوند صاحب کے پوتے میاں گل عبد الودود نے ایک جرگے کے فیصلے کے تحت سوات کا اقتدار سنبھال لیا اور اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے بعد میانگل عبد الودود نے فیصلہ کیا کہ ان کے دادا سے منسوب مسجد کی تعمیر نو کی جائے اور اسے جدید طرز پر دوبارہ تعمیر جائے۔‘
’سیدو بابا مسجد میں حیران کن آمر یہ ہے کہ یہ عمارت اس دور میں تعمیر کی گئی جب ٹیکنالوجی اور جدید وسائل تک رسائی بہت مشکل تھی۔ گزرتے زمانے کے منفی اثرات اور کسی حد تک کوتاہی کے باوجود مسجد کی عمارت اپنی شان برقرار رکھے ہوئے ہے۔‘
اس مسجد کے خادم باچا خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گذشتہ 11 سال سے یہاں خدمت پر مامور ہیں اور یہاں پر ملک بھر سے عقیدت مند زیارات کے لیے آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔
اس مسجد میں سیدو بابا کا مزار بھی ہے جس کی زیارت کے لیے دور دراز علاقوں سے لوگ آتے ہیں کیوں کہ سیدو بابا کو سوات کا روحانی پیشوا مانا جاتا ہے۔
مسجد میں سالانہ عرس بھی منعقد کیا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا ہے۔