گلیشیئر جھیلوں سے 70 لاکھ افراد خطرے میں

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں 3044 گلیشیئر جھیلیں بن چکی ہیں جن سے 71 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔  

20 اگست 2019 کو لی گئی اس تصویر میں قلی اور ان کے خچر پاکستان کے پہاڑی شمالی گلگت علاقے کے قراقرم سلسلے میں بلتورو گلیشیر سے نیچے اتر رہے ہیں(فائل تصویر: اے ایف پی)

موسمی تبدیلی نے گلیشیئر جھیل کے پھٹنے کے واقعات میں بہت حد تک اضافہ کر دیا ہے اور ان گلیشیئر جھیلوں کی وجہ سے پاکستان  میں 70 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔

نیچر کلائمٹ چینج نامی جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 30 سالوں میں گلیشیئر جھیل کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

گلیشیئر جھیل غیر مستحکم ہوتی ہیں اور اس سے جاری ہونے والے پانی کے ساتھ پتھر اور مٹی بھی آتی ہے جس سے جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں گلیشیئر جھیلوں کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، درجنوں گاؤں تباہ ہوئے، مکانات اور عمارتیں تباہ ہوئیں اور ساتھ ہی اہم تنصیبات کو بھی یا تو نقصان ہوا یا تباہ ہوئیں۔

حال ہی میں خیبر پختونخوا کے علاقے چترال میں گولن گول میں گلیشیئر جھیل کے پھٹنے سے کئی مکانات کو نقصان پہنچا اور کئی افراد پھنس گئے۔ جام اشپر گلیشیئر ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اور اسی کی جھیل اچانک پھٹ گئی۔ ایسا 2015 کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے۔ 2015 میں گلیشیئر جھیل کے واقعے میں تین افراد ہلاک اور پانچ لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔

پاکستان میں قطبی علاقوں کو چھوڑ کر پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جن کی تعداد سات ہزار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقیاتی پروگرام کے ایک اندازے کے مطابق ہندو کش ہمالیہ میں تین ہزار گلیشییر جھیلیں بنیں جن میں سے 33 جھیلیں ایسی ہیں جن سے شدید خطرہ لاحق ہے اور 70 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

جنوری 2020 میں رائل میٹرولوجیکل سوسائٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں درکٹ گلیشیئر جھیل گذشتہ دو دہائیوں میں 240 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 

دوسری جانب اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں 3044 گلیشیئر جھیلیں بن چکی ہیں جن سے 71 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔  

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ صنعتی دور سے قبل سے زمین کی سطح کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری کا اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں پہاڑی علاقے میں گرمی میں دو گنا اضافہ ہوا ہے جس کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ 

ناسا کے سیٹیلائٹس سے لی گئی تصاویر پر مبنی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گلیشیئر جھیل کے وولیم میں ڈیڑھ سو مکعب کلومیٹر اضافہ ہوا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 1994 اور 2017 کے درمیان دنیا کے گلیشیئر جھیلوں نے 65 کھرب ٹن پانی کا اخراج ہوا ہے۔ گذشتہ ایک سو سال میں سمندر کی سطح میں اضافے کا 35 فیصد حصہ گلیشیئر کے پگھلنے کے باعث ہوئی۔

ایک دہائی قبل شاید یہ ممکن نہیں تھا کہ گلشیئر جھیلوں کے حوالے سے معلومات پر تحقیق نہ کی جا سکتی ہو لیکن اب یہ ممکن ہو چلا ہے اور اس سے حکومتوں اور سائنسدانوں کو مدد ملے گی کہ وہ ان لوگوں کی مدد کر سکیں جو  گلیشیئر جھیلوں سے خطرے میں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ قراقرم گلیشیئرز کی گذشتہ 40 سال کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بڑی ہوتے ہوئے گلیشیئرز کا گلیشیئر جھیل میں بدل جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگرچہ یہ جھیلیں تازہ پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن جب ان کا بند ٹوٹتا ہے تو بہت تباہی مچاتے ہیں۔

گذشتہ آدھی صدی میں اس علاقے میں گلشیئر جھیلوں کے واقعات کے کئی واقعات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ ایک تازہ واقعے میں شسپر گلیشیئر کی وجہ سے پاکستان اور چین کو ملانے والی واحد سڑک قراقرم کو نقصان پہنچا اور یہ ہائی وے کئی روز تک بند رہی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث گلیشییر جھیلوں میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر بروقت ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے وقت ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان جھیلوں کے گرد ایسے انجینیئرنگ سٹرکچر کھڑے کیے جائیں جن سے ان سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔

موسمی تبدیلے کے علاوہ ان علاقوں میں جنگلات کی کمی بھی گلیشیئر جھیلوں سے ہونے والی تباہی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک کے شمالی علاقوں میں کم از کم 20 لاکھ افراد ایندھن کے لیے لکڑی استعمال کرتے ہیں اور وہ درحت کاٹتے ہیں جس کے باعث جنگلات میں کمی تیزی سے ہو رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ