بھارتی حکام نے بدھ کو بتایا ہے کہ ملک کے شمال میں ہمالیہ کا گلیشیئر ٹوٹنے سے آنے والے تباہ کن سیلاب کے تین دن بعد ایک سرنگ کے اندر پھنسے درجنوں افراد کو بچانے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔
اتوار (سات فروری) کی صبح گلیشیئر ٹوٹنے سے ریاست اترا کھنڈ میں دریائے دھولی کنگا میں طغیانی اور سیلاب سے وادی کے کئی پل اور سڑکیں بہہ گئی تھیں جبکہ دو ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
بدھ کے روز حکام نے بتایا کہ اب تک 32 لاشیں ملی ہیں جب کہ 170 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔
حکام کو خدشہ ہے کہ پتھروں، دیگر ملبے اور بھورے رنگ کے کیچڑ کے نیچے سے مزید لاشیں برآمد ہونے میں مزید کئی دن لگ سکتے ہیں۔
ملنے والی لاشوں میں سے 25 کی شناخت ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ متاثرین میں سے بہت سے بھارت کے دوسرے حصوں سے تعلق رکھنے والے غریب مزدور ہیں، جن کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
اتوار کے روز سے جاری بڑے پیمانے پر دن رات جاری امدادی کاموں کا مرکز اتراکھنڈ ریاست کے ضلع تپووان میں زیر تعمیر پاور پلانٹ کے قریب ایک سرنگ ہے، جہاں درجنوں افراد کے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔
ریسکیو کارکن سینکڑوں ٹن کیچڑ، چٹانوں اور دیگر رکاوٹوں سے گزرتے ہوئے 34 لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ سرنگ کی ایئر پاکٹس میں شاید اب تک زندہ ہوں۔
امدادی کارکن پییوش روٹیلا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے، ان کی تلاش کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن اب بھی کوئی معجزہ ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں بہت سا کام کرنا ہے۔ ہم کئی بلڈوزروں کو ایک ساتھ نہیں دھکیل سکتے۔ انسان اور مشینری 24 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ملبے کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اسے ہٹانے میں وقت لگے گا۔‘
سرحدی پولیس کے ترجمان ویوک پانڈے نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ ’اگر 34 لوگ زندہ ہیں تو سب سے بڑی پریشانی ہائپوتھرمیا ہے جو ایسے حالات میں مہلک ہوسکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرنگ کے باہر سٹینڈ بائی میڈیکل ٹیمیں آکسیجن سلینڈرز اور سٹریچرز کے ساتھ موجود ہیں جب کہ متاثرین کے پریشان حال رشتے دار بھی اپنے پیاروں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
47 سالہ شہل دھیمن نے بتایا کہ ان کا بہنوئی پروین دھون، جو نجی کنٹریکٹر اور تین بچوں کا باپ ہے، نے اتوار کی صبح سیلاب کے وقت تین افراد کے ساتھ سرنگ میں پناہ لی تھی۔
’ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ہم سرنگ کے قریب گئے لیکن وہاں سے پگھلی ہوئی برف نکل رہی تھی۔ سرنگ کے آغاز پر ایک گہری ڈھلوان ہے اور مجھے لگتا ہے کہ پانی اور برف اندر چلی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں امید کے بر خلاف اچھی خبر کا منتظر ہوں۔ حکام اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن صورتحال کسی کی بھی قابلیت سے بالاتر ہے۔‘
اس تباہی کی وجہ ہمالیہ کے خطے میں عالمی حدت کے باعث تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز کو مانا جا رہا ہے۔
ڈیموں کی تعمیر کی سرگرمیاں، ریت کے لیے دریاؤں کے کناروں کی کھدائی، نئی سڑکوں کے لیے درختوں کی کٹائی اور چین کے ساتھ سرحد پر دفاعی اقدامات کو بھی اس تباہی کے دیگر عوامل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔