وسطی ایشیائی انتھراپالوجی میں اجتماعی رضاکارانہ کام کے تصور کو اشر کا نام دیا جاتا تھا۔
’اس خطے میں صدیوں پرانی روایت کو دوبارہ زندہ رکھتے ہوئے ہم نے کووڈ کے دوران بلوچستان کے ان علاقوں میں شجرکاری مہم کا آغاز کیا، جہاں گھنے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث لینڈ سکیپ تبدیل ہوچکا تھا۔‘
’پشتون معاشرے میں ایک زمانے میں پہاڑوں میں لکڑیوں کو اکھٹا کرنے کے لیے اشر کیا جاتا تھا، لیکن ہم اس کے برعکس درخت لگانے کے لیے اشر کا اہتمام کیا۔ درخت لگانے کی اپنی نوعیت کا پہلا اشر تاہنوز جاری ہے، اوراس وقت تک بلوچستان کے مختلف اضلاع ژوب، شیرانی، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، نوشکی، سبی، کوہلواور موسیٰ خیل میں دو لاکھ سے زائد درخت لگائے جاچکے ہیں۔‘
یہ الفاظ ہیں، بلوچستان میں اشر کے نام سے جاری نوزائیدہ تحریک کے روح رواں سماجی کارکن سالمین خپلواک کے، جنہوں نے پاکستان کے پسماندہ صوبے بلوچستان کے طول و عرض میں نہ صرف قبائلی عمائدین بلکہ نوجوانوں کو بھی متحرک کرکے انھیں اشر کے نام سے ایک ایسی پلیٹ فارم مہیا کی، جس کا کام نہ صرف شجرکاری اور درختوں آبیاری ہے، بلکہ باقی ماندہ جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ بھی ہے۔
اشر ہے کیا؟
لفظ اشر کا تعلق قدیم آریائی زبانوں سے ہے، جو پشتونولی (پشتونوں کی روایتی رہن سہن) کا اہم جز اور پشتون معاشرے کی قدیم روایات میں سے ایک ہے۔
مشینی دور سے قبل اجتماعی کاموں کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اشر ہی کا سہارا لیا جاتا تھا، جوکہ خالصتا رضاکارانہ ہوتا تھا۔ اشر گندم کی کٹائی سے لیکر مسجد، گھر یا حجرے (مہمان خانے) کی تعمیر، سیلاب یا پھر شادی کے موقع پر ولیمے کا کھانا تیار کرنے کے لیے پہاڑوں میں لکڑیاں کاٹ کر جمع کرنے تک کیا جاتا تھا۔ اشرمیں حصہ لینے والے افراد کو اشرگری کہا جاتا ہے اور اس رسم کے حوالے یہ تاثر بھی عام ہے، کہ یہ بنیادی طور پر زراعت سے منسلک رسم ہے، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ زمانہ قدیم میں پشتونوں نے جو اپنی لاکھوں ایکڑ زمینیں آباد کردیں تھیں، یہ اشر ہی کا ثمرتھا۔ پرانے زمانے میں فصلوں کی کٹائی کے وقت ایک خوشی کا سماں ہوتا تھا۔ نوجوان ڈھول کی تاپ پرروایتی رقص اتنڑ کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ گھروں کو برف باری اور بارشوں کے نقصانات سے بچانے کے لیے بھی اہل علاقہ ایک دوسرے کے کچے گھروں کی اجتماعی طور پر لپائی کرتے تھے اور سردی کے موسم سے قبل پہاڑوں سے خشک لکڑیاں لانے کے لیے خواتین بھی اشر کرکے پہاڑوں کا رخ کرتی تھیں۔
لیکن سالمین خپلواک نے اسی روایت کو ایسی شکل میں دوبارہ زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے، جس کے ثمر سے نہ صرف صوبے اور ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی لوگ مستفید ہوں گے۔
سالمین اشر کا ناطہ وسطی ایشیائی انتھراپولوجی اور اس زمانے سے جوڑ رہے ہیں، جب بارٹر معیشیت کا نظام ہوا کرتا تھا۔
ان کے مطابق اشر وسطی ایشیاء کے ان علاقوں کی ایک رسم ہے، جہاں موسم بہار اور شب یلدا منائے جاتے ہیں۔ کھیتوں میں مزدوری کے کام یا تعمیراتی کام لوگ رضاکارانہ طور پر کیا کرتے تھے اور اس کے بدلے میں مالک کی جانب سے رضاکاروں (اشرگروں) کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ جبکہ کورونس یونیورسٹی آف بوڈاپیسٹ، ہنگری میں وسطی ایشیا پر تحقیق کرنے والی آرزو شیرانووا کا کہنا ہے کہ اشر وسطی ایشیا میں مقامی کمیونٹیز کے محدود اقتصادی مواقعوں کا حل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اشر کی روایت جدید دور سے پہلے کی ہے۔ یہ کرغیز لوگوں کے قبائلی نظام کے اہم طریقوں میں سے ایک تھا۔
اشر سے مراد وہ اجتماعی کام، جو کمیونٹی کے لوگ کسی مشترکہ یا انفرادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے کرتے تھے۔ اشر دیہی علاقوں میں عام تھا، جہاں رشتہ دار اور پڑوسی فصل کاٹنے، مکان یا عمارت تعمیر کرنے کے موقع پر ایک دوسرے سے مدد مانگتے تھے۔ ان صورتوں میں، جس شخص نے اشر(مدد) کی درخواست کی تھی وہ رشتے داروں اور پڑوسیوں کے لیے آش نامی کھانے کا اہتمام کرتا تھا۔
اشر کا ذکر بلوچستان گزئیٹیرسمیت پشتونولی: عظیم قوم کی عظیم ثقافت اور پشتونولی کتابوں میں بھی موجود ہے، تاہم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ادیب اورمصنف ڈاکٹرشاہ محمد مری کے مطابق اشر کا مقصد نہ صرف دوسرا کا ہاتھ بٹانا ہوتا تھا، بلکہ یہ معاشرے میں بھائی چارے کے فروغ، لوگوں میں اتحاد و اتفاق اورمعاشرتی ترقی میں بھی مددگار ثابت ہوچکا ہے۔
بلوچستان میں اشر (تحریک) کی ضرورت
ضلع ژوب سے متصل ضلع شیرانی میں کوہ سلیمان دنیا کا سب سے بڑا چلغوزے کا جنگل ہے، لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مقامی لوگوں اور ٹمبر مافیا کی ملی بھگت سے چلغوزے کے درختوں کو انتہائی بے دردی سے کاٹا گیا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ دہائی کے چند سالوں کے دوران سات لاکھ کیوبک فٹ پائن کے درخت کاٹ کر ملک کے دیگر حصوں میں سمگل کیے گئے۔ علاوہ ازیں مذکورہ اضلاع میں جنگلی زیتون کے بھی بے شمار جنگل ہوا کرتے تھے، جو اب حکومتی عدم توجہی اور لوگوں کی بے حسی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ علاقہ سرد ہونے اور گیس کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگوں کا انحصار آج بھی انھی قدرتی جنگلات پر ہے۔
مذکورہ اضلاع کے جنگلات میں پائے جانے والے مخلتف اقسام کے جنگلی حیات جیسے مارخور، پہاڑی بکرے، نایاب نسل کی دھبے دارلگڑبگھا اور دیگرجانوراب ناپید ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں ژوب سائبریائی کونج ڈومیزل کی گزرگاہ گرین فلائی وے میں بھی شامل ہے، لیکن بدقسمتی سے مقامی لوگوں کی مدد سے ہرسال یہاں سیکڑوں کونجیں پکڑی جاتی ہیں۔
بلوچستان میں اگرچہ ستر کی دہائی میں فارسٹ اینڈ وائلڈ لائف پروٹیکشن کا قانون نافذ کردیا گیا، جس میں دو دہائی قبل اصلاحات کی گئیں، لیکن سوال قانون پرعملدرآمد کا ہوتا ہے۔ یہی وہ عوامل تھے، جنہوں نے نوجوانوں میں تحریک کا جذبہ پیدا کیا اورانھوں نے اشر کا سہارا لے کر سرعت سے سکڑتے جنگلات اور نیست و نابود ہونے والی جنگلی حیات کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا۔
سالمین خپلواک کہتے ہیں، کہ جب جنگلات کی کٹائی کے حوالے متعلقہ محکمہ سے رابطہ کیا گیا، تو انھوں نے جنگلات کی کٹائی میں مقامی لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ لیکن جب کمیونٹی سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ جنگلات کے محافظ خود اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر درختوں کی کٹائی میں ملوث ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے لوگوں نےقبائلی دشمنی تک کا خطرہ مول لیا ہے، کیونکہ جنگلات کی کٹائی میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمہ کا درج ہونا تو کجا، جنگلات کے حوالے سٹیٹ کی کوئی رٹ ہی موجود نہیں۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال نومبر میں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں ژوب کے سیاحتی مقام سیلیازہ میں قبائلی عمائدین کا جرگہ بلایا گیا۔ جس میں صوبے کے مخلتف اضلاع سے پانچ سو کے قریب قبائلی مشران سمیت، محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے حکام اور نوجوانوں نے بھی شرکت کی۔
سالمین خپلواک کے مطابق اشر تحریک نے رفتہ رفتہ ایک کاررواں کی شکل کی اختیار کی اور لوگ اس میں شامل ہوتے گئے۔ صوبے کے بیشتر اضلاع میں مختلف ناموں سے کمیٹیاں اور گروپس بنے، جو دراصل اشر مہم اور تحریک کا حصہ ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے فیس بک، ٹویٹراور وٹس ایپ گروپس بنائے گئے ہیں، جس میں سرکاری حکام سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں۔ اور اگر کہیں جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کی شکار ہورہی ہو، تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے متعلقہ حکام اور مقامی انتظامیہ کو آگاہ کیا جاتا ہے۔