افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ اتوار کو چھ برس میں دوسری مرتبہ منظر عام پر آئے ہیں۔ انہوں نے اتوار کو ملک میں عیدالفطر منانے والوں سے خطاب میں کہا کہ طالبان نے گذشتہ برس اقتدار میں آنے کے بعد آزادی اور سلامتی حاصل کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دارالحکومت کابل کی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے چند دن بعد سکیورٹی کے سخت ماحول میں منظر عام پر آنے والی شخصیت کا تعارف ہبت اللہ اخوندزادہ کے طور پر کروایا گیا۔
جنوبی افغانستان کے شہر قندھار میں عید گاہ مسجد میں موجود ہزاروں نمازیوں سے خطاب میں ہبت اللہ اخوندزاہ نے کہا کہ وہ ‘فتح، آزادی اور کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں۔ یہ سلامتی اور اسلامی نظام مبارک ہو۔‘
گذشتہ اگست میں کابل کے طالبان کے قبضے میں آنے کے بعد سے ملک بھر میں بم دھماکوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ تاہم افغان عوام کے لیے ہفتے کو ختم ہونے والے رمضان کے آخری دو ہفتوں میں حملوں میں اضافہ ہوا۔
زیادہ تر منظر عام سے غائب رہنے کی وجہ سے اخوندزادہ کے طالبان کی 15 اگست کو قائم ہونے والی نئی حکومت کے قیام میں ان کے کردار نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا حتیٰ کہ ان کی موت کی افواہیں بھی گرم رہیں۔
ان کا عوامی سطح پر منظر عام پر آنا زیادہ تر اسلامی تعطیلات کے دوران پیغامات جاری کرنے تک محدود رہا ہے اور اخوندزادہ کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت قندھار میں گزارتے ہیں۔
عید الفطر سے پہلے جمعے کو جاری کیے گئے بیان میں اخوندازادہ نے اس خوں ریزی کا کوئی ذکر نہیں کیا جو افغانستان میں رمضان کے مہینے میں ہوئی۔
اس کی بجائے انہوں نے ’مضبوط اسلامی اور قومی فوج‘ اور‘مضبوط خفیہ ادارے‘ کی تشکیل پر طالبان کی تعریف کی۔ دوسری جانب حالیہ مہلک حملوں کے بعد بہت سے افغان شہریوں نے گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔
کابل کے رہائشی احمد شاہ ہاشمی کے بقول: ’ہمارے لوگوں کے حالات بہت افسوس ناک ہیں، خاص طور پر اس کے بعد جو کچھ مساجد میں ہوا۔ متعدد نوجوان اور بوڑھے لوگ مارے گئے۔ افغان عوام کے پاس غم کے سوا کچھ نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رمضان میں مہلک ترین حملہ قندوز میں کیا گیا جہاں ایک مسجد میں بم دھاکہ ہوا جہاں عبادت کی جا رہی تھی۔ دھماکے میں 36 لوگ جان سے گئے جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
دوسری جانب آج اتوار کو داعش خراسان نے کابل میں مسافر بس میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ حملے میں ایک خاتون ہلاک ہوئی۔
افغانستان میں اتوار کو ختم ہونے والے ماہ رمضان کے آخری دو ہفتوں میں ہونے والے مہلک حملوں میں درجنوں افغان شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
کابل پولیس کا کہنا ہے کہ مسافر بس میں ہونے والی دھماکے میں ایک خاتون جان سے گئیں اور تین افراد زخمی ہوئے۔
چند روز میں یہ دارالحکومت میں ہونے والا دوسرا بم دھماکہ ہے۔ جمعے کو ایک مسجد میں نماز کے دوران دھماکے میں 10 افراد جان سے گئے۔ کسی گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
داعش حالیہ ہفتوں میں متعدد بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔ طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ان کی فورسز داعش کو شکست دے چکی ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ جہادی گروپ اب بھی افغانستان میں سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ادھر کابل پولیس نے عید کی چھٹیوں کے دوران سلامتی کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔