پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کا ڈسکو دیوانے جس نے نوجوان نسل کو دیوانہ کر دیا تھا۔
نشیلی ہے رات، ہاتھوں میں ہاتھ
ناچیں ستاروں کے ساتھ
سندر بدن یہ چینچل دہن
ناچیں گائیں ساتھ
ڈسکو دیوانے آہاں، آہاں ہو ڈسکو دیوانے
یہ سندر بدن یہ چینچل دہن کسی اور کا نہیں نازیہ حسن کا تھا جن کے گیت نوجوان نسل میں بجلیاں بھر رہے تھے اور وہ بے اختیار ہو کر پاپ کوئین کے ساتھ مسلسل ورد کیے جا رہی تھی: ڈسکو دیوانے آہاں، ڈسکو دیوانے۔
نوجوانوں کو دیوانہ کر دینے والا نازیہ حسن کا البم ڈسکو دیوانے اپریل 1981 میں ریلیز ہوا اور ساؤتھ ایشین میوزک کا منظر تبدیل کر کے رکھ دیا۔
اپنے عہد میں ایشائی پاپ میوزک کا بیسٹ سیلر البم نہ صرف ایشیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا بلکہ افریقہ، روس، امریکہ اور برطانیہ میں بھی اس کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ بمبئی میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ریلیز کے پہلے روز ہی اس کے ایک لاکھ ریکارڈ فروخت ہوئے۔
نازیہ حسن نے ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘ سے نئے رجحان کی بنیاد رکھی اور ڈسکو ڈانسر سے اس مقام تک لے گئیں جسے کوئی دوسرا نہ چھو سکا۔
فیروز خان کی فلم قربانی (1980) کی موسیقار کلیان جی آنند جی تھے لیکن پروڈیوسر ڈائریکٹر اور قربانی کے ہیرو فیروز خان نے انڈین نژاد برطانوی موسیقار بدو سے ایک ڈسکو نمبر ترتیب دینے کے لیے رابطہ کیا۔ لندن میں فیروز خان اور زینت امان اس گیت کو حتمی شکل دینے کے لیے پہنچے اور وہاں انہوں نے ایک نئی آواز دریافت کی۔
نازیہ حسن کے والدین شروع میں تذبذب کا شکار تھے۔ بالآخر زینت امان کے اصرار پر مان گئے اور یوں بدو نے آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے ریکارڈ کیا۔ جب قربانی ریلیز ہوئی تو اس گیت نے بالی وڈ میں تہلکہ مچا دیا۔ نازیہ حسن کو بہترین گلوکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ کم عمری میں فلم فیئر جیتنے کا ریکارڈ آج بھی نازیہ حسن کے پاس ہے۔
بدو، نازیہ اور زوہیب کی آواز مزید کئی فلموں میں استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے گھر والے تیار نہ تھے۔ ان کے والدین چاہتے تھے کہ یہ دونوں بہن بھائی ابھی اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز رکھیں۔ مزید برآں وہ فلم انڈسٹری کے ماحول سے بھی کچھ زیادہ مطمئن نہ تھے۔ اس مشکل کا حل بدو نے پرائیویٹ البم ریکارڈ کرنے کی صورت میں نکالا۔
انڈیا میں فلم میوزک کی بے پناہ مقبولیت کے بعد تقریباً یہ تاثر پختہ ہو چکا تھا کہ غیر فلمی البم خاطر خواہ عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا لیکن ڈسکو دیوانے اس معاملے میں بھی غیر روایتی ثابت ہوا۔
ڈسکو دیوانے میں کل ملا کر دس گیت شامل تھے جن میں سے چھ کی موسیقی بدو نے جبکہ ایک کی ارشد محمود اور دو گیتوں کی محمود اور زوہیب نے مشترکہ طور پر ترتیب دی۔ اس البم میں نازیہ حسن اور ذوہیب کا نقش آواز کے ساتھ ساتھ الفاظ کی صورت میں بھی موجود ہے۔
بہن بھائی نے مل کر تین گیتوں (آؤ نا، لیکن میرا دل، دل میرا) کے بول خود لکھے۔ جذبے سے سرشار معصومیت میں ڈوبے یہ گیت کہیں سے بھی کھردرے نہیں محسوس ہوتے۔ دیگر نغمہ نگاروں میں انور خالد، نگار صہبائی اور فاروق قیصر کے نام شامل ہیں لیکن ایک نام خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
لیجنڈری نظم نگار میرا جی کی ایک نظم مجھے چاہے نہ چاہے دل تیرا اس البم کا حصہ ہے۔ بظاہر ایک بالکل مختلف فضا کی موسیقی میں کہیں سے بھی میرا جی کا گیت غیر مانوس نہیں لگتا۔ نازیہ حسن اور ذوہیب کی آواز میں ان شعروں کو سننا ایک بے مثل جمالیاتی تجربہ محسوس ہوتا ہے۔
مجھے چاہے نہ چاہے دل تیرا تو مجھ کو چاہ بڑھانے دے
اک پاگل پریمی کو اپنی چاہت کے نغمے گانے دے
تو رانی پریم کہانی کی چپ چاپ کہانی سنتی جا
یہ پریم کی بانی سنتی جا، پریمی کو گیت سنانے دے
بعد میں یہ گیت ناہید اختر نے بھی گایا جس سے آپ لطف اندوز ہونا چاہیں تو اسے سننے سے اجتناب کریں گے۔
ڈسکو دیوانے کی بے مثال کامیابی نے انڈیا اور پاکستان میں پاپ موسیقی کا دروازہ کھول دیا جس کے اثرات 80 اور 90 کی دہائی میں بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔
اس البم کے بعد نازیہ اور ذوہیب کے چار سٹوڈیو البم بوم بوم (1982)، ینگ ترنگ (1984)، ہاٹ لائن (1987) اور کیمرا کیمرا (1993) بھی کامیابی سے ہم کنار ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی ڈسکو دیوانے کا نقش مدھم نہ کر سکا۔ یہ ایسا ماؤنٹ ایورسٹ تھا جسے کوئی اور تو کیا خود نازیہ حسن بھی سر نہ کر سکیں۔