پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کی نہایت ذائقہ دار اور لذیذ بوندی نہ صرف ضلع بلکہ صوبے بھر میں مشہور ہے، جہاں بوندی کے رسیا 60 سالوں سے قائم ایک دکان سے روزانہ 13 من تک بوندی خریدتے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 190 کلومیٹر کے فاصلے پر قلعہ سیف اللہ بازار میں ایک خستہ حال مکان میں قائم ’سجاول سویٹس ہاؤس‘ کی دکان کے باہر سرخ رنگ کی بوندی اور جلیبی یہاں کے راہگیروں کو ضرور اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔
یہاں کاریگر تین اوقات میں کام کرتے ہیں اور بوندی تیار ہونے کا سلسلہ بھی شب و روز جاری رہتا ہے۔
رمضان میں افطاری سے قبل یہاں لوگوں کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے اور بوندی خریدنے کا سلسلہ سحری تک جاری رہتا ہے۔
سجاول سوئٹس ہاؤس کے نام سے مشہور دکان کے مالک نورالدین موسیٰ زئی کا کہنا ہے کہ ان کے سسر سجاول نے یہ کام 1960 میں شروع کیا، جبکہ ان کے آباواجداد تقسیم ہند سے قبل بوندی تیار کرنے کے ماہر تھے۔ ان کے بقول انہوں نے یہ کام ہندووں سے سیکھا تھا۔
نورالدین موسیٰ زئی سجاول کے داماد ہیں اور گذشتہ 30 سال سے اس دکان میں کام کرتے رہے ہیں۔ وہ پہلے سجاول کے شاگرد بنے بعد میں ان کے داماد اور اب اس دکان کے مالک ہیں۔
ان کے مطابق ان کی تیار کردہ بوندی اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے قلعہ سیف اللہ سمیت پورے بلوچستان میں پسند کی جاتی ہے اور سجاول بوندی اب قلعہ سیف اللہ کی پہچان بن چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ سے اسلام آباد، لاہور، ملتان، سرگودھا اور دیگر شہروں کو سفر کرنے والے یہاں سے بوندی خرید کر لے جاتے ہیں۔ افغان سرحد سے متصل علاقے بادینی کے لوگ بھی سجاول بوندی کے دلدادہ ہیں۔
سجاول بوندی کے بعض شوقین افغانستان میں بھی ہیں اور وہ ملک کے باہر بھی لے جاتے ہیں۔ کیونکہ کئی دن گزرنے کے باوجود بھی بوندی کا نہ تو رنگ تبدیل ہوتا ہے اور نہ ہی ذائقہ متاثر ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نورالدین موسیٰ زئی نے بتایا: ’سجاول کا تعلق اعوان قبیلے اور جہلم سے تھا۔ وہ تقسیم ہند سے قبل قلعہ سیف اللہ آئے اور بوندی بنانے کا کاروبار شروع کیا۔ ان کے اباواجداد بھی اسی پیشے سے منسلک تھے۔ اب ان کا بیٹا، داماد اور پوتا اس کاروبار کو چلارہے ہیں۔‘
نورالدین موسیٰ زئی نے بتایا کہ یہ بوندی صرف ایک جگہ تیار ہوتی ہے اور ان کی کوئی اور برانچ موجود نہیں۔ ’دیگر جگہوں پر سجاول کے نام کا بورڈ لگا کر بیچنے والے نقلی ہیں۔‘
بوندی کی ترکیب کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اسے ایک خاص طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔ بوندی کو پہلے کڑاہی میں تل کر دوسری کڑاہی میں تیار کردہ شکر میں ڈالا جاتا ہے۔
’ہم پہلے بیسن کو ٹب میں ڈال کر اس کے ساتھ لال رنگ اور سوڈا مکس کرتے ہیں۔ پھر اس میں پانی ڈال کر نرم کیا جاتا ہے۔ بڑی کڑاہی میں گھی گرم ہونے پر چھلنی کے ذریعے سرخ بیسن گھی میں ڈال کر پکاتے ہیں۔ اس کے بعد پانی اور چینی کا چاشنی بنا کر اس میں ڈبوتے ہیں اور تیار کرتے ہیں۔ ایک کڑاہی کو بوندی پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری میں چینی اور پانی کا شیرا ہوتا ہے۔‘
نورالدین موسیٰ زئی نے بتایا کہ اس میں صرف خالص اجزا ہوتے ہیں اور کسی قسم کے کیمیکل وغیرہ کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے، کہ ہر عمر کے افراد اس کو شوق سے کھاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہم اس میں بہت اچھے معیار کی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ فوڈ اتھارٹی والوں نے یہاں کا دورہ کرکے مٹھائی کا معیار چیک کیا۔ انہوں نے دوسری دکانوں کا غیرمعیاری گھی نالی میں گرا دیا، لیکن ہمارا معیار دیکھ کر داد دی، تصویریں لیں اور ایک کتاب بھی دی۔ انہوں نے لیبارٹری مشین کے ذریعے چیزوں کا معیار چیک کیا۔‘
نورالدین موسیٰ زئی نے مزید بتایا کہ سجاول کے نام کی بوندی اور جلیبی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے لینے کے لیے دور دور سے شوقین آتے ہیں۔ لورالائی، ژوب، مسلم باغ اور افغان سرحدی علاقے بادینی سے بھی لوگ لینے آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں روزانہ کم از کم 13 من تک بوندی بکتی ہے۔ ’ابھی مہنگائی کی وجہ سے لوگ زیادہ نہیں خرید سکتے۔ یہاں تین سو روپے فی کلو ہے۔ جب ریٹ اس سے بھی کم تھا، تو 25 سے 30 من بوندی بک جاتی تھی۔‘