فیصل آباد کے تھانہ مدینہ ٹاؤن کے رہائشی محمد نعیم کی مدعیت میں مسجد نبوی میں نعرے بازی پر مذہبی جذبات مجروح ہونے اور توہین مذہب کے جرائم کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس ایف آئی آر میں سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے علاوہ سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، سابق وفاقی وزرا فواد چودھری، شیخ رشید اور ان کے بھتیجے ایم این اے شیخ راشد شفیق، ترجمان پی ٹی آئی شہباز گل، صاحبزادہ جہانگیر، برطانوی شہری اور عمران خان کے دوست انیل مسرت، نبیل مسرت، عمیر الیاس، رانا عبدالستار، بیرسٹر عامر الیاس، گوہر جیلانی سمیت 15 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
جبکہ ان کے علاوہ سو سے ڈیڑھ سو نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ شیخ رشید کے بھتیجے راشد شفیق کو بطور ’سرغنہ‘ نامزد کیا گیا جن کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جا چکی ہے۔
مدعی کا کہنا ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اس نے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ’سیاسی جماعت‘ کی جانب سے مسجد نبوی میں نعرے بازی اور ’بے حرمتی‘ کی ویڈیوز دیکھیں۔
مدعی کے مطابق ’یہ ایک سوچا سمجھا واقعہ تھا جس کی باقاعدہ منصوبہ بندی اور تشہیر کی گئی۔‘
انہوں نے درحواست میں الزام علیہان کا تعلق ایک ’سیاسی جماعت‘ سے ہے جن کے خلاف مسجد نبوی کی حرمت کی ’پامالی‘ اور وہاں آئے پاکستانی عمائدین سمیت زائرین کی ’حراسگی‘ پر قانونی کارروائی کی استدعا کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی آر میں جائے وقوعہ کا اندراج تین کلومیٹر جانب جنوب از تھانہ کیا گیا ہے۔ وقت وقوعہ کا اندراج 28 اپریل 2022 جبکہ درخواست کی تاریخ 30 اپریل 2022 درج کی گئی ہے۔
یہ حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ سابق وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف درج ہونے والی پہلی ایف آئی آر ہے۔
پاکستان میں ذاتی یا سیاسی دشمنی کی بنیاد پر توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات کا منظرعام پر آنا کوئی نئی بات نہیں لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت پر بظاہر ایک عام شہری کی مدعیت میں ایف آئی آر درج ہونے کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ ہے۔
گذشتہ 70 سال سے ملک کی سیاست دائرے کے جس سفر میں ہے اسے دیکھ کر یہ بات بہت آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ سیاست کے میدان میں اس نئے پینترے کے استعمال کا یہ آخری واقعہ ہر گز نہیں ہوگا۔
ایف آئی آر کے درج ہونے کے اگلے مرحلے میں پولیس کی طرف سے نامزد ملزمان کی گرفتاریوں اور تفتیش کا آغاز کیا جاتا ہے جسے فی الوقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر روک دیا گیا ہے لیکن معاملے کے پیش منظر اور پس منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم چند ایک قانونی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔
کیا سعودی عرب میں ہوئے ایک واقعے کی ایف آئی آر پاکستان میں درج کی جاسکتی ہے؟
فیصل آباد اور اٹک میں رجسٹر ہوئی ان ایف آئی آرز کے تناظر سوشل میڈیا پر ایک اعتراض بار بار اٹھایا گیا کہ واقعہ سعودی عرب میں ہو رہا ہے اور اس کی ایف آئی آر مدینہ ٹاؤن فیصل آباد میں درج ہورہی ہے۔
ایک پوسٹ جو ہزاروں کی تعداد میں فیس بک پر شیئر ہوئی اس میں کہا گیا کہ پولیس تو قتل تک کا واقعہ بھی اکثر یہ کہہ کر ٹال دیتی ہے کہ یہ وقوعہ ساتھ والے تھانے کی حدود میں ہوا ہے تو مدینہ میں ہوئے ایک واقعے کی ایف آئی آر فیصل آباد کے مدینہ ٹاؤن میں کیسے؟
اس مقدمے کے سیاسی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جائے تو بیرون ملک ہوئے کسی بھی واقعے پر پاکستان میں مقدمہ درج کیا جانا غیر قانونی بالکل بھی نہیں ہے بلکہ یہ تعزیرات پاکستان میں طے قانونی دائرہ کار کے عین مطابق ہے۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ3 کے مطابق اگر پاکستان کے کسی شہری پر کسی قانون کی رو سے کسی ایسے جرم پر مقدمہ چلایا جائے جو پاکستان کی حدود سے باہر سرزد ہوا ہو تو اس پر تعزیرات پاکستان کا اطلاق ہوگا جبکہ دفعہ 4 کے مطابق پاکستان کا کوئی بھی شہری یا سرکاری ملازم پاکستان کی حدود سے باہر کسی ایسے جرم کا مرتکب ہوتا ہے جو تعزیرات پاکستان کے تحت ایک جرم ہے تو اس پر تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
کیا پاکستان میں پہلے بھی ایسا کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں جرم پاکستان کی حدود سے باہر سرزد ہوا ہو؟
جی ہاں۔ انفرادی نوعیت کی ایسی ایف آئی آرز کی مثالیں تو ان گنت ہیں مگر 2008 میں ہونے والا ممبئی حملہ کیس اس کی ایک واضح مثال ہے۔
بھارت میں ہونے والے اس حملے کی ایف آئی آر فروری 2009 میں پاکستان میں بھی درج کی گئی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پچھلے ماہ ہی ٹیرر فائینانسنگ کے جرم میں جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو 31 سال کی قید کی سزا بھی سنائی ہے۔
اسی طرح 2016 میں پٹھان کوٹ انڈیا میں ہوئے ایک دہشت گردی کے واقعے پر سی ٹی ڈی تھانہ گجرانوالہ میں دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت نامعلوم ملزمان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا۔
ایف آئی آر کا اندراج کون کروا سکتا تھا؟
ایف آئی آر کا مطلب ہوتا ہے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ، یعنی ابتدائی اطلاعی بیان۔ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے کوئی بھی ایسا شخص پولیس کے سامنے اطلاع دہندہ بن سکتا ہے جس نے اس وقوعے کو دیکھا ہو۔
پولیس کسی بھی جرم کی اطلاع پانے پر واقعے کا اندراج کرنے کی پابند ہے اور کوئی پولیس افسر بھی ابتدائی اطلاعی رپورٹ کا مدعی بن سکتا ہے۔
توہین مذہب کی مختلف دفعات کے تحت درج کروائے گئے اس مقدمے میں اس حد تک تو کوئی مسئلہ نہیں کہ ایک غیر متاثرہ شخص کی طرف سے یہ ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے مگر ایک بات جو اس سارے معاملے کو کمزور کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایف آئی آر ایک ایسے شخص کی طرف سے درج کروائی گئی ہے جو اس پورے معاملے کا ذاتی طور پر گواہ بھی نہیں ہے۔
مدعی کے مطابق اسے اس واقعے کا صرف اس حد تک علم ہے جتنا چند منٹ کے کلپ میں سوشل میڈیا یا ٹیلی وژن پر دکھایا گیا۔
پہلے پہل ٹیلی وژن یا سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر توہین مذہب کے مقدمات کے اندراج کی درخواست پر پولیس کی طرف سے معاملے کو ایف آئی اے کو ریفر کر دیا جاتا تھا تاکہ سائبر کرائم یونٹ ان ذرائع کی تصدیق کرنے کے بعد اندراج مقدمہ کرے۔
البتہ تحریک انصاف کی حکومت میں پنجاب کی حد تک سوشل میڈیا کے ذریعے توہین مذہب کا علم ہونے کی دعویداری کے سینکڑوں مقدمات محض ایک درخواست پر پولیس اور سی ٹی ڈی نے درج کئے جن میں بہت سے مقدمات میں عدالتوں نے سزاؤں کا اجرا بھی کیا۔
اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ محض اس بنیاد پر عدالتوں سے پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف مل پائے گا۔
اس مقدمے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور دیگر افراد کو اعانت جرم کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
پاکستان پپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی اسی دفعہ کے تحت قتل کے مقدمے میں سزائے موت دی گئی تھی جو پاکستان کی عدالتی تاریخ کی واحد مثال ہے۔
سپریم کورٹ سے تائید حاصل کرنے والے اس مقدمے کو آج بھی بطور نظیر ماتحت عدالتوں تک میں پیش نہیں کیا جاتا۔ علاوہ ازیں سہولت کاری کے الزام میں جن افراد کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے ان پر غلط طور پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 لگائی گئی ہے جبکہ پاکستان میں ہونے والی کوئی بھی ایسی اعانت جرم جس کے تحت ارتکاب جرم ملک سے باہر ہوا ہو اس کے تحت دفعہ 109 تعزیرات پاکستان کی بجائے دفعہ 108 الف کا اطلاق ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ اور دیگر سرکردہ افراد کے خلاف سازش کا الزام ثابت کرنا تو شاید ممکن نہ ہو سکے لیکن اگر وہاں موقع پر موجود افراد میں سے کچھ افراد مدعی مقدمہ کی تائید میں اپنے بیانات ریکارڈ کروا دیتے ہیں اور سعودی عرب سے ڈیجیٹل ڈیٹا کی تصدیق حاصل کرکے اسے شامل مثل کر دیا جاتا ہے تو ان افراد کے خلاف ایک مضبوط مقدمہ بنایا جاسکتا ہے جو ویڈیو میں مقدس مقام پر نعرے لگاتے یا ہلڑ بازی کرتے نظر آرہے ہیں۔