تقریباً ایک ماہ پرانی حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ن لیگی ارکان نے بدھ کو لندن میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے مطابق انہیں ملک کے سیاسی اور معاشی بحرانوں پر بریفنگ دی۔
مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں بتایا کہ نوازشریف کی زیرصدارت اس اہم مشاورتی اجلاس کی پہلی نشست بدھ کو ہوئی جس میں ’موجودہ حکومت کو ورثے میں ملنے والے سنگین معاشی، آئینی اور انتظامی بحرانوں پر نوازشریف کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔‘
بیان کے مطابق حکومتی ٹیم نے موجودہ معاشی حقائق سے نوازشریف کو آگاہ کیا۔ حکومتی ٹیم نے بتایا کہ عوام کو مہنگائی کے اضافی مزید بوجھ سے بچانے کے لیے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ توانائی کے شعبے میں سابق حکومت کے پیدا کردہ سنگین بحران، لوڈشیڈنگ، تیل اور ایل این جی نہ منگوانے کی تفصیلات بیان کی گئیں۔
اجلاس نے مہنگائی، لوڈشیڈنگ سے عوام کو نجات دلانے اور ریلیف کی فراہمی سے متعلق مختلف سفارشات پر غور کیا۔
مریم اورنگزیب نے بیان میں مزید کہا کہ نوازشریف کی زیرصدارت حتمی فیصلوں کے لیے آج اجلاس میں ملک اور عوام کو بحران سے نکالنے کے لیے حکمت عملی کی منظوری دی جائے گی۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ 30 اپریل، 2022 تک 39 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا۔
تجارتی خسارے کا مطلب کسی بھی ملک کی درآمدات برآمدات کے مقابلے میں بڑھ جانے کو کہتے ہیں۔
ادارہ شماریات کے اعدادو شمار کے مطابق جولائی2021 سے اپریل 2022 تک درآمدات کا کل حجم 65 ارب ڈالرز سے زائد ہے اور معاشی ماہرین اس بڑھوتری کو معیشت کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔
برطانیہ کے معتبر اخبار فنانشل ٹائمز نے رواں ہفتے ایک رپورٹ میں پاکستان کی معاشی حالات کو خراب قرار دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کی معشیت ’دہانے‘ پر ہے۔
مضمون میں لکھا گیا کہ پاکستان کے بیرونی اثاثے گذشتہ دو مہینوں میں انتہائی حد تک گر گئے ہیں۔ تاہم شہباز شریف کی حکومت حالات پر قابوپانے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ سے (آئی ایم ایف ) سے معاشی پیکج اور چین اور سعودی عرب سے قلیل مدتی قرضہ لینے کی کوشش میں ہے۔
پاکستان کے بیرونی اثاثے( فارن ایکسچینج ریزرو) جس میں سونا بھی شامل ہے، تقریباً چھ ارب ڈالرز رہ گئے ہیں جس سے پاکستان صرف ایک مہینے کی درآمدات کو کور کر سکتا ہے۔ یعنی یہ اتنے اثاثے ہیں کہ اس سے پاکستان بیرون ممالک سے اشیا خریدنے کے صرف ایک مہینے کا بل ادا کر سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فنانشل ٹائمز کے مضمون میں مزید لکھا گیا کہ ملک میں عوام اور صنعتوں کو بجلی کی ترسیل میں بھی کمی کی گئی ہے کیونکہ حکومت اس قابل نہیں کہ کوئلہ یا قدرتی گیس خرید کر اپنے پاور پلانٹ چلا سکے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اس معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیوں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا رہی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ماہر معاشیات اور اور پاکستان کی معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے شاہ رخ وانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے عمران خان کی سابق حکومت کی جانب سے فراہم کردہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنا ہو گی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اس پر سبسڈی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ جون تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے۔
شاہ رخ کے مطابق سابق حکومت کی یہ سبسڈی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ اسے ختم کرنا آئی ایم ایف کی پاکستان کو پیکج دینے کی شرط بھی ہے لیکن حکومت اس سبسڈی کو اس لیے ختم نہیں کر سکتی کیونکہ اس سے مہنگائی مزید بڑھے گی اور اور سیاسی بحران میں اضافہ ہوگا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہی پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ہی واحد وجہ ہے جو ملک میں معاشی بحران کا سبب بن رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اول تو حکومت مستقبل میں یہ سبسڈی جاری نہیں رکھ سکتی اور اگر حکومت اسے جاری رکھنا چاہے بھی تو اسے قرضہ لینا ہوگا یا کسی دوسری سیکٹر کا بجٹ کم کرنا پڑے گا۔
شاہ رخ کے مطابق آئی ایم ایف شرائط میں شامل ہے کہ یہ سبسڈی ختم کی جائے اور موجودہ حالات میں پاکستان کو آئی ایم ایف کی پیکج کی ضرورت ہے۔ ’یہ پیکج جتنا جلدی ہو سکے ملک کی معاشی حالت کے لیے بہتر ہے۔‘
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر آئی ایم ایف کا پیکج نہیں ملتا تو ملک خطرناک معاشی بحران کی طرف چلا جائے گا اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ وہ درآمدات کا بل ادا کر سکے۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایندھن پر ایسی کسی پالیسی پر غور کر رہے ہیں جس سے غریب عوام کو تو سبسڈی ملے لیکن امیر کو نہیں۔ مسلم لیگ ن کے مصدق ملک نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ اس بابت وزیر اعظم نے وزیر خزانہ کو خصوصی حکم دیا ہے اور یہ پالیسی حتمی مرحلے میں ہے۔
‘یہ ریفارمز نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کی جائے۔‘
شاہ رخ نے بتایا کہ حکومت یہ کر سکتی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کر کے ان پیسوں میں سے کچھ حصہ غریب طبقے کو ٹرانسفر کر سکے یا پیٹرولیم مصنوعات پر ٹارگٹڈ سبسڈی دے تاکہ ملک کا غریب طبقہ زیادہ متاثر نہ ہو۔
انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے لیے معشیت کور کرنے والے شہباز رانا سے جب پوچھا گیا کہ شہباز شریف کو حکومت معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامت میں تاخیر کیوں کر رہے ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے سے عوامی اور سیاسی دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ لینے اور سبسڈی ختم کرنے سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور حکومت اسی ڈر سے اقدامات اٹھانے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے۔
’پاکستان کی موجودہ معاشی حالات اتنے اب تر نہیں کہ سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوجائے تاہم حکومت اس حوالے سے سوچ رہی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں کچھ نہ کچھ حکومت کرے گی تاکہ معاشی بحران سے بچایا جا سکے۔‘
عالمی مالیاتی بینک کے ایشیا کے سربراہ ہارٹ ویگ شیپر نے گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان کی پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات میں معاشی اصلاحات اور قرضوں کی منیجمنٹ پر بات چیت ہوگئی۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں پاکستان میں مستقبل میں ممکنہ منہگائی کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ عالمی دنیا میں انرجی اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے پاکستان بھی متاثر ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ریفامرز کی ضرورت ہے اور اس مد میں ورلڈ بینک پاکستان کی مدد کرے گا۔