کراچی کے رہائشی ارشد نے دو سال قبل سو سے زائد درخت لگائے تھے جنہیں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اب کاٹ دیے جانے کا خطرہ ہے تاہم ارشد کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے ان کے درخت بچ جائیں۔
ڈاکٹر ارشد حسین ماحولیاتی کارکن ہیں اور گلشن اقبال بلاک ون میں واقع حرمین رائل ریزیڈنسی کے رہائشی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے دو سال پہلے یہاں سو درخت لگائے تھے جن کو یہاں کی انتظامیہ نکالنا چاہتی ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یہ درخت بالکل میرے بچوں کی طرح ہیں میں ان کو کبھی بھی نکالنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میں پودوں کی اہمیت کو جانتا ہوں۔ ہم نے جب دو سال پہلے پودے لگائے تھے تو بلڈر نے لگانے دیے تھے۔ اس کے بعد سے ہم پودوں کا خیال کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں انار، چیکو، ناریل اور ان کے علاوہ کئی اقسام کے درخت ہیں جن میں سے کچھ میں پھل بھی نکل آئے ہیں۔ ’ہمارے پودے پوری طرح سے اصلی ہیں، ہم نے ان میں کوئی کیمیکل یا کیڑے مار ادویات وغیرہ شامل نہیں کی۔ یہ پودے اور ان کے پھل سوسائٹی کے لوگوں کے لیے ہیں میں انہیں صرف اپنے لیے نہیں رکھنا چاہتا۔‘
ان کے بقول سوسائٹی کے بلڈر کا کہنا ہے کہ وہ ان پودوں کو نکالنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہاں روڈ بنا سکیں۔
ڈاکٹر ارشد حسین نے کہا: ’ہمیں روڈ بنانے سے اعتراض نہیں ہے، وہ بالکل روڈ بنائیں لیکن ہمیشہ پائیدار ترقی کی جاتی ہے یہ نہیں کہ آپ نے 100 سے زائد پودے اکھاڑے اور روڈ بنا دی۔‘
اس معاملے ہر ہم نے متعدد بار سوسائٹی کے مالک یا ان کے ترجمان محمد مزمل سے ان کا موقف حاصل کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سوسائٹی کا اگلا داخلی دروازہ برابر میں بنی ہوئی ایک سوسائٹی کے ساتھ بہت تنگ جگہ میں موجود ہے۔ ڈاکٹر ارشد نے بتایا: ’دو سال قبل جب یہ پراجیکٹ بنا تو بلڈر نے کہا تھا کہ وہ اس عمارت کا پچھلا دروازہ جو کہ لیاری ایکسپریس وے سے متصل ہے، اسے ہی مین گیٹ یا اگلا داخلی دروازہ بنا دیں گے۔‘
’تاہم ابھی امتیاز سپر مارکیٹ سے یاسین آباد تک جانے والی لیاری ایکسپریس وے سے متصل تین کلومیٹر لمبی سڑک پوری طرح سے کچی ہے۔ اس سڑک کے مختلف مقامات پر کچرا، پتھر اور ملبہ پڑے ہونے کے باعث یہاں سے موٹر سائیکل بھی بہت مشکل سے گزرتی ہے۔ دو سال پہلے میں نے بلڈر اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اجازت سے یہاں پر سو پودے لگائے تھے۔ اس وقت میرے اس ماحول دوست اقدام کا خیر مقدم کیا گیا تھا مگر اب معاملہ بالکل الگ ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں نے یہاں پودوں کی دیکھ بھال کے لیے دو مالی رکھے ہوئے ہیں۔ میرے مالیوں کو عمارت کے موجودہ اگلے دروازے سے پودوں کے پاس جانے نہیں دیا جاتا۔ بلڈرز نے وہ گیٹ بند کر کے تالا لگا دیا ہے جس سے ہم عمارت کے اندر سے پودوں کے پاس باآسانی جاسکتے تھے۔ پچھلے کئی مہینوں سے یہ ہورہا ہے کہ میرے مالی کو ڈیڑھ کلومیٹر آگے سے گھوم پر کچے راستے سے آنا پڑتا ہے جس میں اسے ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے جب کہ یہ 10 منٹ کا کام ہے۔‘
ہم نے اس حوالے سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے رابطہ کیا تو ڈپٹی ڈائریکٹر مرتضی فواد کا کہنا تھا: ’لیاری ایکسپریس وے سے متصل یہ سڑک این ایچ اے کی ملکیت ہے کسی بلڈر کی نہیں۔ اگر بلڈر یہاں روڈ بنانا چاہتا ہے تو اسے پہلے ہم سے این او سی حاصل کرنا ہوگا جس کے بعد ہی وہ وہاں روڈ بنا سکے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حرمین رائل ریزیڈنسی کے بلڈرز کے پاس فی الحال این او سی نہیں ہے جس کے باعث ان کے پاس روڈ بنانے کی اجازت نہیں۔