خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں گذشتہ روز انسداد دہشت گردی پولیس (کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ) کے مطابق تحصیل باڑہ کے خادم نامی شخص کو پشاور کے سربند پولیس سٹیشن کی حدود سے گرفتار کیا گیا، جن کے بارے میں مقامی صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک صحافی ہیں اور ان کا دہشتگردی کی کسی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔
ضلع خیبر کے پولیس سربراہ محمد عمران نے بتایا کہ یہ کارروائی سی ٹی ڈی پولیس نے کی لیکن وہ خود ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔
عمران نے بتایا، ’پولیس تفتیش کر رہی ہے اور اگر تفتیش میں خادم بے گناہ ثابت ہوئے تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ سارے صحافی ہمارے لیے معزز ہیں اور اگر خادم پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔‘
عمران سے جب پوچھا گیا کہ مقامی صحافی دعویٰ کر رہے ہیں کہ خادم کو کسی اور ہم نام کے مغالطے میں گرفتار کیا گیا تو جواب میں عمران نے بتایا ’مجھے بھی مقامی صحافیوں کی طرف سے یہی بتایا گیا لیکن ابھی پولیس تفتیش کررہی ہے اور یہ کیس سی ٹی ڈی کے پاس ہے تو جوں ہی مزید پیش رفت ہوگی میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔‘
عمران سے جب پوچھا گیا کہ کیا ضلع خیبر میں صحافی خادم کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ تاحال کوئی ریکارڈ نظر نہیں آیا لیکن چوں کہ قبائلی اضلاع کے ضم ہونے سے پہلے یہاں پولیس کا باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا، اس لیے اس کیس کی تفتیش کی ضرورت ہوگی کہ کیا ملزم کا کوئی ریکارڈ موجود ہے یا نہیں۔
’خادم کے علاقائی تھانے میں ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں لیکن پشاور پولیس کیس کی تفتیش کر رہی ہے۔‘
سی ٹی ڈی کی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ خادم خیبر پختونخوا پولیس کو مطلوب تھے کیونکہ انھوں نے مبینہ طور پر عرصہ پہلے گلبہار پولیس سٹیشن کے رائیڈر سکواڈ پر حملہ کیا جس میں پولیس اہلکار کرامت اللہ ہلاک اور ان کا ساتھی زخمی ہوا تھا۔
پریس ریلیز میں لکھا گیا: ’علاقہ تھانہ سربند کے حدود میں مصدقہ اطلاع پر سی ٹی ڈی پشاور ریجن کی آپریشن ٹیم اور سپیشل ٹیم ڈی ایف یو نے ٹارگٹد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں ملزم خادم کو گرفتار کیا۔ خادم اشتہاری تھے اور صوبائی حکومت نے ان کی سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کی تھی۔‘
تاہم پریس ریلیز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خادم صحافی ہیں اور نہ پریس ریلیز میں ان کے والد اور باڑہ میں ان کے گھر کا پتہ درج ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض مقامی صحافی کہہ رہے ہیں کہ یہ گرفتاری غلط شناخت کی وجہ سے ہوئی۔
سی ٹی ڈی پولیس نے ایک مقدمہ بھی میڈیا کے ساتھ شئیر کیا ہے جو 2013 میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔
پولیس کے مطابق اس مقدمے میں خادم مطلوب تھے۔ مقدمے کے مطابق پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی میں ایک ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔
تاہم مقامی صحافیوں کے مطابق خادم باڑہ میں 10 سالوں سے صحافت کر رہے ہیں اور باڑہ پریس کلب کے ممبر بھی ہیں۔
باڑہ پریس کلب کے صدر کامران آفریدی نے بتایا خادم کو بغیر کسی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔
کامران نے بتایا کہ خادم خان کو شام کے وقت باڑہ پریس کلب سے گھر جاتے ہوئے پہلے سے موجود سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتار کیا لیکن سی ٹی ڈی پریس ریلیز کے مطابق ان کو پشاور کے سربند تھانے کے حدود سے گرفتار کیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس کیس پر سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی جاوید اقبال وزیر کا ردعمل جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن انھوں نے پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے آئی جی پولیس کے ترجمان نوید گل کو بھی اسی سلسلے میں پیغام بھیجا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
یاد رہے کہ صحافی خادم روزنامہ ایکسپریس کے لیے تحصیل باڑہ سے نمائدہ ہیں۔ ان کے فیس بک وال پر بھی ان کی فائل شدہ خبریں پوسٹ ہیں۔ وہ ایکسپریس کے علاوہ دیگر میڈیا اداروں کے لیے بھی کام کر چکے ہیں۔
اس گرفتاری پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں کہ اگر صحافی خادم 10 سال سے مطلوب تھے تو وہ اتنا عرصہ کیسے کھلے عام گھومتے پھرتے رہے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
اسی طرح صحافی وہ باڑہ اور خیبر میں پولیس کی مختلف پریس کانفرنسز کور کرتے آئے ہیں تو اس وقت انہیں کیوں نہیں گرفتار کیا گیا۔
اس سوالوں کے جواب جاننے کے لیے سی ٹی ڈی حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔