پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران میڈیا اور اس سے جڑے افراد کے خلاف حملوں کے کم از کم 86 واقعات پیش آئے۔
پاکستان میں قائم میڈیا رائٹس واچ ڈاگ فریڈم نیٹ ورک کی اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگرچہ مئی 2021 سے اپریل 2022 کے درمیان ریکارڈ کی جانے والی خلاف ورزیوں کی مجموعی تعداد میں کئی درجے کمی آئی ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنانے کا رجحان جاری ہے جو صحافیوں کے خلاف اور اظہار رائے کی آزادی پر حملوں کا مسلسل بنیادوں پر رجحان بتاتا ہے۔
ہر سال تین مئی کو عالمی سطح پر پریس کی آزادی کے دن کے موقع پر 2022 کے لیے پاکستان میں جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ریاستی عناصر پاکستان میں صحافیوں کے لیے خطرے کا سب سے بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم عمران خان حکومت کی جانب سے جبر میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں قتل، قانونی مقدمات، حملے، اغوا، حراست کے واقعات رونما ہوئے اور دھمکیاں دی گئیں۔
رپورٹ مرتب کرنے کے زیادہ عرصے کے دوران پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ تحریک انصاف کی سابق حکومت کا کہنا تھا کہ وہ میڈیا کی مکمل آزادی پر یقین رکھتی ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ چونکہ ڈیجیٹل میڈیا پاکستانی میڈیا کے لیے نئی افق ہے اس لیے حکومت آن لائن آزادی کے خلاف کارروائی کے لیے زیادہ بے چین ہے اور ڈیجیٹل صحافی ہراساں کیے جانے، بدسلوکی اور قانونی خطرات کا منظم ہدف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سرحدوں سے عاری انٹرنیٹ کی آزادی کا تحفظ کرنا چاہیے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور یہاں تک کہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے کیونکہ صحافیوں کے خلاف ہر جگہ حملے ہو رہے ہیں۔
رپورٹ 2022 کے اہم نتائج، پاکستان میں میڈیا کے خلاف خلاف ورزیوں کا پیمانہ اور ان کی تعداد:
پاکستان میں تین مئی 2021 سے 10 اپریل 2021 کے ایک سال کے دوران چاروں صوبوں اسلام آباد، گلگت بلتستان اور کشمیر سمیت تمام علاقوں میں حملوں اور صحافیوں اور میڈیا پریکٹیشنرز کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے کم از کم 86 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ یہ ایک ماہ میں خلاف ورزیوں کے اوسطا سات سے زیادہ واقعات ہیں یعنی ہر پانچویں دن ایک حملہ۔
زیرنظر مدت میں پاکستان میں صحافیوں کے خلاف خلاف ورزیوں کی سرفہرست تین قسموں میں (الف) ان کے خلاف دائر 13 قانونی مقدمات (15 فیصد) اور آف لائن ہراساں کرنے کے 13 واقعات (15 فیصد)، (ب) حکام کی جانب سے غیر قانونی حراست کی 11 وارداتیں (13 فیصد)، (ج) قتل کی کوشش کے نو واقعات (11 فیصد) اور زبانی دھمکیوں کے نو مقدمات (11 فیصد) شامل ہیں۔ اس عرصے میں پاکستان میں میڈیا کے خلاف خلاف ورزیوں کی 83 کیٹیگریز میں سے 65 فیصد خلاف ورزیاں قانونی مقدمات، آف لائن ہراساں کرنا، غیر قانونی حراست، قتل کی کوشش اور زبانی دھمکیاں پر مشتمل ہیں۔
صحافیوں کے لیے خطرناک ترین علاقے:
مجموعی طور پر اسلام آباد وفاقی دارالحکومت جہاں37 فیصد خلاف ورزیاں (کل 86 میں سے 32 کیسز) ریکارڈ کی گئی ہیں، پاکستان میں صحافت کے لیے سب سے خطرناک جگہ کے طور پر ابھرا۔ 27 فیصد خلاف ورزیوں (23 کیسز) کے ساتھ سندھ دوسرے بدترین اور خیبر پختونخوا (کے پی) 19 فیصد (16 کیسز) کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ ان کے بعد پنجاب میں 13 فیصد (11 کیسز)، بلوچستان میں تقریبا دو فیصد (دو کیسز) اور جموں و کشمیر (اے جے کے) اور گلگت بلتستان (جی بی) کا ایک ایک کیس سامنے آیا۔
سب سے زیادہ نشانہ بننے والا میڈیم:
ٹی وی اور پرنٹ میڈیا نشانے پر: زیر جائزہ عرصے میں پاکستان میں ریکارڈ کیے گئے کل 86 حملوں اور صحافیوں کے خلاف خلاف ورزیوں میں سے ٹی وی پرنٹ، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے مقابلے میں کم از کم 39 واقعات (45 فیصد) کے ساتھ میڈیا کی قسم کا واحد سب سے بڑا شکار بن کر ابھرا۔ پرنٹ میڈیا دوسرا سب سے زیادہ نشانہ بنایا جانے والا میڈیم تھا جس کے لیے کام کرنے والے 35 صحافیوں (41 فیصد) کو نشانہ بنایا جبکہ آن لائن صحافیوں کو نشانہ بنانے کے 12 کیسز (14 فیصد) ریکارڈ کیے گئے۔ ریڈیو سے منسلک صحافی کو نشانہ بنانے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔
میڈیا کو نشانہ بنانے والے سب سے بڑے خطرے والے عناصر:
پاکستان میں میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف خلاف ورزیوں کے 86 دستاویزی واقعات (کم از کم 35 مقدمات) میں سے 41 فیصد میں - اس طرح سب سے بڑا خطرناک عنصر - زیر جائزہ عرصے میں متاثرین یا ان کے اہل خانہ کو دیگر بااثر خطرے کے اداکاروں کے مقابلے میں ان پر حملوں میں ریاست اور اس کے حکام اور عہدیداروں کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
24 فیصد (کم از کم 21 کیسز) کے ساتھ متفرق 'دیگر' کا ایک گروپ زیر جائزہ عرصے میں دوسرے سب سے بڑے خطرے کے اداکار کے طور پر ابھرا۔ 'نامعلوم': متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ حکام اور ان کے آجر 22 صحافیوں (25 فیصد واقعات) کے خلاف خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کی شناخت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ رپورٹ نے حیرت کا اظہار کیا کہ متاثرین یا ان کے اہل خانہ کی طرف سے شناخت کردہ خطرے کے اداکار کا ایک اور زمرہ سیاسی جماعتیں تھیں جو چار فیصد (تین واقعات) پر مشتمل تھیں۔
خواتین میڈیا پریکٹیشنرز کو نشانہ بنانا:
اہداف کا جائزہ لینے کے دوران میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف کل 86 خلاف ورزیوں میں سے کم از کم تین میں خواتین صحافیوں کو سنگین نتائج یا ہراساں کرنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔
ڈیجیٹل میڈیا صحافی نشانے پر:
زیر جائزہ مدت میں میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف کل 86 خلاف ورزیوں میں سے کم از کم 12 میں (یا 14 فیصد) اہداف ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے صحافی تھے۔ ان میں ہلاک ہونے والے چار صحافیوں میں سے دو بھی شامل تھے۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر اپنے پیغام میں کہ ان کی حکومت آزادی صحافت کو ایک بنیادی، جمہوری اور آئینی حق گردانتی ہے۔ ’ملک میں میڈیا سینسر شپ کا کوئی تصور نہیں، میڈیا کو سیاست، معیشت یا کسی بھی دوسرے شعبہ میں رپورٹ کرنے کی بے مثال آزادی حاصل ہے، حکومت ملک میں آزاد اور ذمہ دار میڈیا کے فروغ اور ورکنگ جرنلسٹس کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سہولیات فراہم کرنے میں یقین رکھتی ہے۔‘