لوئر چترال میں ڈپٹی کمشنر آفس کی جانب سے پاکٹ گائیڈ اور مائیکرو پیپرز کی خرید و فروخت پر دو ماہ کے لیے پابندی نافذ کرنے پر لوگوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر و مجسٹریٹ لوئر چترال انوارالحق نے 11 مئی کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پابندی لگائی۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ اقدام لوگوں کی شکایات کے بعد امتحانات میں نقل کے خاتمے کے لیے اُٹھایا گیا۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق ایسے مواد کی دستیابی قابل طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔
نویں جماعت کے طالب علم فواد علی کہتے ہیں کہ وہ امتحان کی تیاری کے لیے گائیڈ، حل شدہ پیپرز، گیس پیپرز استعمال کرتے ہیں اور پاکٹ گائیڈ کا رجحان بہت کم ہے۔
’اگر کوئی طالب علم نقل کرنا چاہے تو پاکٹ گائیڈ ضروری نہیں وہ کاپی کے اوراق، گائیڈ کے اوراق بھی استعمال کر سکتا ہے۔ یہ نگران کی مرضی ہے وہ امتحانات میں سختی کرتے ہیں یا نرمی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر امتحان میں نگران سخت ہوں تو نقل کا امکان نہیں ہوتا کیوں کہ طالب علم کو پتہ ہوتا ہے کہ پکڑے جانے کی صورت میں پیپر کینسل ہو سکتا ہے یا پابندی عاید ہو سکتی ہے۔
چترال سے تعلق رکھنے والے وکیل فرید احمد رضا کہتے ہیں کہ پابندی کی منطق سمجھ نہیں آ رہی۔
’اگر نقل کو روکنا ہے تو نگرانوں کی تربیت ہونا چاہیے اور امتحان کا طریقہ کار بدلنا چاہیے نہ کہ کتاب پر پابندی لگائی جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ نقل کرنے والا کتاب کے صفحات سے بھی نقل کرسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ پاکٹ گائیڈ استعمال ہو۔
’پاکٹ گائیڈ کا اصل مقصد کم وقت میں امتحان کی تیاری ہے۔ اس سے ایک طالب علم سال بھر کی تیاری کا کم وقت میں دہرا سکتا ہے۔‘
فرید احمد مزید کہتے ہیں کہ اس پابندی سے دکان داروں کو بھی نقصان ہو گا جو پہلے ہی سے کاروبار نہ ہونے وجہ سے پریشان ہیں۔
کتابوں کی ایک دکان کے مالک جاوید صالح کہتے ہیں کہ انہوں نے 10 سالوں سے دکان میں پاکٹ گائیڈ نہیں رکھی کیونکہ اے سی آفس سے وقتاً فوقتاً ہدایات ملتی تھیں کہ ایسا مواد نہیں رکھنا جس کا نقل وغیرہ میں استعمال ہونے کا اندیشہ ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکٹ گائیڈ کے علاوہ حل شدہ پرچے، گائیڈ اور گیس پیپرز ان کی دُکان میں موجود ہوتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا پابندی سے پاکٹ گائیڈ ختم ہو پائیں گی تو ان کا جواب نفی میں تھا۔
’ہم نہیں رکھتے تو دوسرے دکان دار حتیٰ کہ تندور والے بھی لے کر آتے ہیں۔ جو طالب علم نقل کرنا چاہتا ہو وہ کہیں سے بھی اس کا بندوبست کر سکتا ہے۔
ایک سابق استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے دوران ملازمت کئی نقل کرنے والوں کو پکڑا لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نقل کی وجہ سے تعلیمی نظام کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ایک قابل طالب علم کے ساتھ ناانصافی ہے جو سال بھر پڑھتا ہے محنت کرتا ہے لیکن امتحان میں نقل کرنے والے با آسانی نمبر لے جاتے ہیں۔
’اگر پابندی سے نقل کی روک تھام ہو تو یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا یہ طریقہ کار آمد ثابت ہوگا۔ اس سلسلے والدین اور بچوں میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔‘