ہمیں بچپن سے بتایا جاتا ہے کہ نقل بری بات ہے۔
پرچے میں سامنے والے کی گردن تک بندہ سر اٹھا کے دیکھتا نئیں اور ساتھ والا چیختا تھا، مس س س س س، یہ ارسلان کی نقل کر رہا ہے۔ سارے پیپر سر جھکائے کاٹنے پڑتے تھے۔
پھر بڑے ہوئے تو اسائنمنٹس کی باری لگ گئی۔ اس میں بھی یہی تھا کہ میری اسائنمنٹ احمد جیسی نہ ہو، احمد کی بلال جیسی نہ ہو اور بلال کی ظاہری بات ہے ہم دونوں سمیت پوری کلاس میں کسی کے جیسی نہ ہو۔
وہ آسمان ختم ہوا تو تھیسس کی کھجور میں جا اٹکے، ادھر مسئلہ اور زیادہ تھا، موضوع کوئی بھی ہو لیکن پوری معلوم تاریخ میں کسی نے اس پر مجھ جیسا کچھ لکھا ہو اور نہ کُل جہانِ گوگل پہ ایسی کوئی ریسرچ بھٹکتی پھرتی ہو۔ ذرہ برابر کوئی ملتا جلتا مال پایا گیا تو پورا تھیسس ضائع!
اردو ادب میں بھی یہ جھگڑے بہت زیادہ ہیں، فلانے شاعر کا شعر فلانے کی نقل ہے، اِس ادیب کا افسانہ اُس انگریزی ناول جیسا ہے، یہ ناول پولش ادیب کے افسانے کو پھیلا کر بنا ہے۔
فلموں اور گانوں کا معاملہ آپ کے سامنے ہے، اپنا علاقہ بھرا ہوا ہے ڈٹو کاپی مال سے۔
فیس بک اور ٹوئٹر پہ بھی دانشور دھاڑیں مار کے روتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں نے میرا پورا سٹیٹس اڑا لیا۔
دنیا بھائی جان پوری کی پوری نقل ہے! ہر چیز نقل ہے، سب کچھ!
جس نے پہیہ پہلی بار ایجاد کیا اسے گول پتھر دیکھ کے ہی خیال آیا ہوگا؟ اب تک کتنے پہیے ہم یوز کرچکے، کبھی احمد نے کہا کہ میرے پہیے کی نقل کری ارسلان نے؟ یا کسی چلتی گاڑی کو دیکھ کر آپ کو لگا ہو کہ اس نے تو ہمارے پہیے بالکل کاپی کر لیے!
آپ کے منہ سے جو لفظ نکلا وہ اب کائنات کا حصہ ہے، جو بات سامنے والے نے کی وہ آپ کی یادداشت کا ٹکڑا ہے اور جو موسیقی آج سے ہزار سال پہلے پہاڑوں میں کوئی جنگ جیتنے پر بجائی گئی اس کی بازگشت کے باریک ترین حصے آج بھی ریڈیو ویوز کی صورت بھٹکتے پھر رہے ہیں۔
کوئی بات ایسی نہیں جسے نیا کہا جا سکے، کوئی خیال ایسا نہیں جو پہلے کسی نے سوچا نہ ہو، کوئی کہانی ایسی نہیں جو پہلے سنی نہ گئی ہو یا واقع نہ ہوئی ہو، کوئی دھن ایسی نہیں جس کے حصے کبھی بجے نہ ہوں اور ۔۔۔ اور کچھ بھی ایسا نہیں جسے نیا کہا جا سکے۔
آپ کو اجازت ہے، میری تحریر اپنے نام سے چھاپ لیں، ایکدم کھلی اجازت! میرے کسی بلاگ سے کوئی حصہ اپنے سٹیٹس میں پیل دیں، جو مرضی کریں!
سوال یہ ہے کہ میں اس پہ ملکیت جتانے والا کون ہوں؟ تحریر کا خالق؟ لاحول ولا! خلق ہو چکا بھئی سب کچھ، اب تو بس جو چل رہا ہے کاپی ہے، سراسر کاپی! میرا تعلق اپنی تحریر سے بس اتنا ہے کہ الفاظ کا وہ ربط سب سے پہلے میرے دماغ میں آیا اور میں نے اسے لکھ دیا اور پڑھ کر سنا دیا۔ بات منہ سے نکلی، سوشل میڈیا چڑھی، کتاب پہ اتری، تو اس کے بعد میں کون؟ کاپی رائٹ صرف اس چیز کا ہے کہ میرے نام سے فلاں چیز کہیں اور چھپ نہیں سکتی اور کسی دوسرے کا لکھا میرے نام سے چھاپنا آپ کا حق نہیں، ٹھیک؟ وہ دنیا کا دھندا ہے، باقی کیسی ملکیت؟ اور اس پہ اکڑنا، اور اس پہ لڑنا، اور اس پہ لوگوں کی ٹائم لائن پہ جا کر پھڈے ڈالنا ۔۔۔ یہ سب کیوں بھئی؟ کیا ہم واقعی اتنے فارغ ہیں؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ہاتھوں کچھ نیا اس دنیا میں ہونے جا بھی رہا ہے تو جب وہ ہو گیا تو پھر اسے سب کے سامنے نہیں لائیں گے؟ لائیں گے تو بھیا وہ کسی دوسرے کو پسند بھی تو آ سکتا ہے۔ کتنی ملکیتیں پال کر کتنا ہلکان ہو سکتا ہے آدمی؟
ایک برانڈ، ایک ڈیزائن، ہزاروں سوٹ ۔۔۔ اب کیا دنیا میں سب نقل خور ہیں؟ ایک کتاب، لاکھوں کاپیاں، تو کیا آپ نقل نہیں پڑھ رہے؟ ایک قانون اور کروڑوں لوگ اسی پہ چلنے والے، اسی کو رٹنے والے۔ گنے چنے طریقے عبادت کے اور ان کو ماننے والے دنیا میں ساڑھے سات ارب لوگ۔ سب کچھ ایک دوسرے کے جیسا ہے اوریجنل کچھ بھی نہیں، کہیں بھی نہیں!
وہی دو آنکھیں، وہی زبان، وہی ناک کان، وہی اعضا، وہی سب کچھ، تو کیا جو بچہ آپ پیدا کریں گے وہ اصل ہوگا، باقی دنیا نقل ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوچیں، سمجھیں، اگر دماغ قدرت نے دے دیا ہے تو آگے کو بڑھیں، بجائے یہ کہ جو کرلیا اس کا ہار گلے میں لٹکا کے دائرے میں ڈھول بجاتے گھومتے رہیں۔ آپ سے پہلے کسی نے پرچہ نہیں دیا، اسائنمنٹ نہیں کی، تھیسس جمع نہیں کرایا، شاعری نہیں کی، ادب سے شغل نہیں کیا، کیا ایسا ہے جو پہلے کبھی نہ ہوا ہو؟ وہی الف بے پے ہے اور ان کی ترتیب ہے اور آپ ہیں اور دنیا ہے اور سمجھ دانی کہتی ہے آپ ’تخلیق کار‘ ہیں اور آپ کا چوڑے میں رقص نہیں ختم ہوتا!
سب سے اہم چیز، اگر آپ کو خود یہ دعویٰ ہے کہ فلاں خیال ’جینوئنلی میرا‘ ہے، یہ تحریر میری ہے، یہ سٹیٹس سب سے پہلے میں نے لکھا تو پھر غم کس بات کا؟ ایسا ہو کیسے سکتا ہے کہ دوسرا ’نقل‘ کرے اور آپ سے پہلے کرجائے؟ چِل پِل بابا، ریلیکس!
سکول کالج والوں کو سمجھائے کون کہ ابو بن ادھم کی سمری اگر پچاس بچے لکھتے ہیں اور بیس نے لکھی فرخ درانی والی اور دس نے کلائمنٹ جان والی اور باقی بیس نے احمد ندیم والی تو چیٹنگ تو یہ بھی ہوئی کہ نہیں؟ اگر میرے اور آپ کے تھیسس میں ریفرنس بکس ایک جیسی ہیں تو یہ نقل نہیں ہوگی کیا؟ اور جس طریقے سے تحقیق کی جاتی ہے، کنٹرولڈ انوائرمنٹ کے ریسرچ میٹھڈ ایک جیسے نہیں ہوتے کیا؟
کچھ سوال اصل میں جواب ہوتے ہیں اور بہت سے جواب مل کے پھر سے ایک سوال بناتے ہیں۔ سوال کو زوال نہیں! سوالی بننا بہتر ہے بجائے ملکیت میں ڈھیروں دعوے رکھنے کے! رئے ناں سائیں دا!