آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک حکومت کی تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے نااہل ہونے پر دوبارہ حکومت تبدیلی یا اسمبلیاں تحلیل ہونےکا امکان ہے۔
پی ٹی آئی اور منحرف ارکان کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن 25 منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کے نااہلی ریفرنسز پر فیصلہ آج یعنی بدھ کو 12 بجے سنائے گا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی نے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے خلاف نااہلی ریفرنس الیکشن کمیشن بھیجا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ ان اراکین نے فلور کراسنگ کر کے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کی ہے لہذا انہیں نااہل قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ کے منگل کے فیصلے کے بعد کہ منحرف اراکین کے ووٹ گنے نہیں جاسکتے حمزہ شہباز کی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔
یہ واضح ہے کہ ان اراکین کے ڈی سیٹ ہونے پر حمزہ شہباز اکثریت کھو دیں گے اور اس صورت میں قانونی ماہرین کے مطابق انہیں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ اگر 186 اراکین کی حمایت دوبارہ ثابت نہیں کر سکتے تو پھر کسی اور کو حمایت ظاہر کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ اگر وہ گنتی پوری کرتے ہیں تو وزیر اعلیٰ تبدیل اور نہ کرسکنے پر اسمبلیاں تحلیل ہوسکتی ہیں۔
حکومتی اتحاد نے پی ٹی آئی کے 25 اراکین پنجاب اسمبلی کو ساتھ ملا کر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو منتخب تو کرا لیا لیکن اب تک صوبائی کابینہ تشکیل نہیں دی جاسکی ہے۔
دوسری جانب سیاسی حریف اس صورت حال میں اپنی اپنی تیاری کر رہے ہیں۔ حکومتی اتحاد پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے رہا ہے جبکہ تحریک انصاف اور ق لیگ اپنی اکثریت بنا کر حکومت کی تبدیلی یا اسمبلی تحلیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے پہلے ہی حمزہ شہباز کے انتخابات اور حلف لیے جانے پر تحفظات موجود ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے برطرف گورنر عمر سرفراز چیمہ کے مطابق ابھی تک آئینی طور پر عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں ان کا استعفی مسترد کر دیا گیا ہے۔
پنجاب میں آئینی بحران کی شدت کا کتنا خدشہ ہے؟
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے جن 25 اراکین نے پارٹی پالیسی کے خلاف مخالف امیدوار کو قائد اعوان کا ووٹ دے کر 63اے کی خلاف ورزی کی، ان کے ڈی سیٹ ہونے سے ایوان میں ایک بار پھر صورت حال خراب ہوجائے گی۔
پہلی بات تو یہ کہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اکثریت کی حمایت کھو دیں گے اس صورت میں سپیکر انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں دوبارہ آئینی طور پر 371 کے ایوان میں سے 25 اراکین نکالنے کے بعد 346 مجموعی ممبران میں سے ہی 186 اراکین کی حمایت ظاہر کرنا ہوگی۔
اگر ایسا نہ ہوسکا تو سپیکر کسی دوسرے شخص کو مطلوبہ حمایت ثابت کرنے کا کہیں گے اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر جو ایوان میں موجود زیادہ اراکین کی حمایت ثابت کر دے گا وہ قائد ایوان ہوسکتا ہے۔
امجد شاہ کے بقول: ’ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آئین جہاں خاموش ہے عدالت اس کی تشریح کرے کہ اگر حمزہ شہباز الیکشن کمیشن یا عدالت سے رجوع کر کے یہ موقف اپناتے ہیں کہ ایوان میں اراکین کی تعداد پوری ہونے تک اعتماد کا ووٹ یا تحریک عدم اعتماد کی کارروائی سے سپیکر کو روکا جائے لہذا ڈی سیٹ ہونے والے اراکین 40 دن میں دوبارہ انتخاب کے بعد ایوان میں آئیں اور قائد ایوان سے متعلق دوبارہ فیصلہ ہو۔‘
ان کے خیال میں ایسا ہونا مشکل اس لیے ہے کہ دونوں فریقین اس وقت پنجاب میں سیاسی سبقت حاصل کرنے کی جستجو کر رہے ہیں۔ نیا گورنر بھی تعینات نہیں ہوا اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی خود وزارت اعلی کے امیدوار ہیں تو وہ فوری طور پر اعتماد کا ووٹ لینے یا تحریک عدم اعتماد کی طرف جائیں گے۔
اس لیے اسمبلیاں تحلیل ہونے کا بھی قوی امکان ہے کیونکہ اس مبہم صورت حال میں اگر تھوڑا سا بھی موقع اس وقت کی اپوزیشن کو ملتا ہے وہ اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔
فریقین کی تیاریاں
حکمران اتحاد کی جانب سے وزارت اعلی پنجاب کے انتخاب سے قبل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی منحرف اراکین کو ساتھ ملا کر کامیابی تو حاصل کر لی لیکن سیاسی بحران دور نہ ہوسکا اور نہ قانونی طور پر منحرف اراکین ڈی سیٹ ہونے کے بعد کوئی حکمت عملی دکھائی دے رہی ہے۔
اس معاملہ پر ترجمان مسلم لیگ ن پنجاب عظمی بخاری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری قانونی ٹیم اس صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے اس میں آئینی و قانونی طور پر جو بھی حل نظر آئے گا اسی پر عمل کیا جائے گا۔
دوسری جانب سابق صوبائی وزیر راجہ یاسر نے کہا کہ ان کی مکمل تیاری ہے۔ ’ہمارے 25 منحرف اراکین میں سے پانچ مخصوص نشستوں پر نامزد اراکین ہیں جن کے ڈی سیٹ ہوتے ہی ہم متبادل پانچ اراکین کو نامزد کرا کے الیکشن کمیشن سے نوٹیفکیشن کروا لیں گے۔ اس طرح ہماری تعداد میں مذید اضافہ ہوجائے گا۔‘
اس کے علاوہ اگر حمزہ شہباز کو 25 اراکین کی حمایت حاصل نہیں رہتی تو ہمارے اراکین کی تعداد ان سے زیادہ ہوجائے گی۔
انہوں نے دعوی کیا کہ اس صورت حال میں ’ہم اپنا قائد ایوان یعنی وزیر اعلیٰ منتخب کر سکتے ہیں اگر ہم یہ کر نے میں کامیاب ہوگئے تو قیادت سے مشاورت کے بعد اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف جانے کا راستہ صاف ہوجائے گا۔‘
راجہ یاسر کے بقول پنجاب اسمبلی کا اجلاس منعقد کر کے وہ وزیر اعلیٰ تبدیل کرنے کی حکمت عملی تیار کر چکے ہیں جس کے مطابق 11 اراکین کی برطرفی سے اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
امجد شاہ کے مطابق ایسی صورت میں ایک اور مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔ ’اسمبلی کا اجلاس وزیر اعلیٰ کی تجویز پر گورنر طلب کرتا ہے گورنر صوبہ میں موجود ہی نہیں ہے اور جو 30 مئی کو سپیکر چوہدری پرویز الہی نے اجلاس طلب کر رکھا ہے اس کے ایجنڈے میں یہ سارا معاملہ شامل نہیں تاہم وہ اب شامل کریں گے تو حکومت اسے مسترد کر سکتی ہے تو یہ ایک نئی لڑائی شروع ہوسکتی ہے۔‘
قانونی ماہرکی رائے اور پارٹی پوزیشن
سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی کے انتخاب میں آئینی طور پر پہلے پول میں سادہ اکثریت 186ووٹ لینا لازمی ہیں لیکن اگر کوئی بھی امیدوار یہ تعداد ثابت نہیں کر سکے تو دوسرے پول میں ایوان کے اندر موجود اراکین کی اکثریت جس کے ساتھ ہوگی وہ قائد ایوان تسلیم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا پنجاب میں آئینی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے گورنر تعینات کرنا لازمی ہے کیوں کہ ایوان کی ایسی صورتحال میں گورنر کی ہدایات لازمی ہونی چاہیے جب سپیکر خود امیدوار ہیں تو ڈپٹی سپیکر کو ہی دوبارہ اجلاس کی صدارت کرنی پڑے گی اور وزیراعلی کا انتخاب کرانا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالتی معاملہ
پنجاب میں حکومت کی تشکیل کا معاملہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرانے اور وزیر اعلیٰ کا حلف لیے جانے کے بعد ابھی تک زیر سماعت ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف اور ق لیگ کے اراکین کی جانب سے حمزہ شہباز کی سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے حلف لیے جانے کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
اس معاملہ پر دلچسپ صورت اس وقت پیدا ہوئی جب 17 مئی کو سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے ہٹائے گئے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس بھی بطور اے جی پیش ہوگئے اور جنہیں ایڈووکیٹ جنرل کا اضافی چارج دیا گیا تھا یعنی جواد یعقوب وہ بھی بطور اے جی پیش ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کام صوبائی حکومت کا دفاع کرنا ہوتا ہے مگر احمد اویس کے مطابق حمزہ کا حلف غیرقانونی جبکہ جواد یعقوب کے مطابق قانونی ہے۔ احمد اویس کے مطابق انہوں نے جو عدالت میں حمزہ شہباز کے حلف سے متعلق جواب جمع کرانا تھا وہ حکومت نے ضائع کرا دیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی منحرف اراکین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہوگئی ہے جس میں منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کون؟
سابق حکومتی جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں پنجاب سے جن اراکین کے خلاف نااہلی کی درخواست دی گئی ہے ان میں راولپنڈی سے منتخب ہونے والے راجہ صغیراحمد، غلام رسول سانگھا (خوشاب)، سعید اکبر خان (بھکر)، محمد اجمل چیمہ (فیصل آباد)، عبدالعلیم خان (لاہور)، نذیراحمد چوہان (لاہور)، عون چوہدری کے بھائی امین ذوالقرنین (لاہور)، نعمان لنگڑیال (ساہیوال)، پی پی 217 سے شاہ محمود قریشی کو شکست دے کر کامیاب محمد سلمان نعیم (ملتان)، پی پی 224 سے کامیاب جہانگرین ترین کے قریبی ساتھی زوار حسین وڑائچ (لودھراں)، نذیر احمد خان(لودھراں)، فدا حسین (بہاول نگر)، زہرا بتول(مظفر گڑھ)، محمد طاہر (لیہ)، خواتین کی مخصوص نشست 322 پر نامزد عائشہ نواز اور نشست327 پر نامزد ساجدہ یوسف، نشست 311 پر نامزد عظمی کاردار، ہارون عمران گل اور اعجاز مسیح اقلیتی نشستوں پر نامزد ہوئے تھے، ملک اسد علی کھولھر (لاہور)، سبطین رضا (مظفر گڑھ)، محسن عطا کھوسہ (ڈیرہ غازی خان)، میاں خالد محمود (شیخوپورہ)، مہر محمد اسلم (ضلع جھنگ) اور حلقہ 125 سے منتخب فیصل حیات شامل ہیں۔