ٹوئٹر پر مریم ایس خان نامی خاتون نے پیر کو ایک وارڈن کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے ان پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مریم نے اپنی پوسٹ میں سٹی ٹریفک پولیس لاہور کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کو بھی ٹیگ کیا ہے اور ٹویٹ میں شیئر کی گئی تصاویر میں ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل پر بیٹھے ایک ٹریفک وارڈن کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مبینہ طور پر ان کی گاڑی میں جھانکتے ہوئے مسکرا رہے ہیں اور ہاتھ سے کچھ اشارہ کر رہے ہیں۔
خاتون نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ’یہ تصاویر ٹریفک پولیس آفیسر سمیع اللہ کی ہیں جو دوپہر ساڑھے 12 بجے مال روڈ پر مجھے اور میری بیٹی کو اس وقت ہراساں کر رہے تھے جب ہم جی او آر ون کے سامنے ٹریفک لائٹ پر کھڑے تھے۔ کیا آپ اپنی صفوں سے اس گندگی کو صاف کرنے کے لیے تیار ہیں یا یہ آپ کی ترجیح نہیں؟‘
Here are photos of a traffic police officer named SAMI ULLAH on Mall Road, Lahore at 12.30 pm today, harassing me and my daughter while we were at a traffic light stop before G.O.R. 1. Are you ready to clean up this filth from your ranks @ctplahore or is this not your priority? pic.twitter.com/TDVF7bvNUK
— Maryam S. Khan (@MaryamShKhan) May 16, 2022
مریم نامی خاتون کی اس ٹویٹ پر سی ٹی او لاہور منتظر مہدی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے اس ٹریفک وارڈن کو معطل کردیا ہے اور سٹی ٹریفک پولیس لاہور کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے وارڈن کی معطلی کا پروانہ بھی ٹویٹ کیا۔
سی ٹی او لاہور نے اس ٹریفک وارڈن کو فوری طور پر معطل کر دیا ہے اور اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) May 16, 2022
پنجاب پولیس خواتین کے احترام اور تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ ہراسانی میں ملوث افراد کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہیں. https://t.co/yBS6jYPgbX pic.twitter.com/rpx8FFHODp
سی ٹی او لاہور کے ترجمان عارف رانا نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ واقعہ مال روڈ پر پیش آیا تھا۔ خاتون نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعے کو رپورٹ کیا تھا اور ہم ایسے واقعات کی روک تھام میں کوئی کوتاہی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے فوری اس وارڈن کو معطل کر دیا اور صرف یہی نہیں ہم نے اس واقعے کی انکوائری کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ ہم تفتیش کے دوران متاثرہ خاتون کو بھی بلائیں گے اور اس وارڈن کو بھی۔ باقی سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں ان سے بھی فوٹیج حاصل کی جائے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ٹویٹ کرنے والی خاتون مریم سے بھی رابطے کی کوشش کی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
البتہ مریم نے اپنے اسی ٹویٹ کے جواب میں سٹی ٹریفک پولیس لاہور کے اعلیٰ افسران کا وارڈن کو معطل کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا جس کے جواب میں لاہور ٹریفک پولیس کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا کہ ’اگر کسی کو ٹریفک پولیس اہلکار کے حوالے سے کوئی شکایت ہے تو وہ راستہ ایپ پر اپنی شکایت درج کراسکتا ہے۔ جو کہ مناسب پلیٹ فارم ہے۔
Mam if you have any complain regarding any traffic police official .you can register complain on Rasta app which is the right forum please.
— City Traffic Police Lahore (@ctplahore) May 16, 2022
خاتون کے ٹویٹ پر ٹوئٹر صارفین کا بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک صارف عامر رضا نے لکھا ’پتہ نہیں کہ سٹوری کیا لیکن میں اکثر چھوٹے بچوں کو گاڑی میں دیکھ کر سمائل دیتا ہوں لیکن اس ٹویٹ کے بعد ایسا نہیں کروں گا کہ گاڑی والے کہیں اسے ہراسانی نہ سمجھیں۔‘
پتہ نہیں کہ سٹوری کیا لیکن میں اکثر چھوٹے بچوں کو گاڑی میں دیکھ کر سمائل پاس کرتا ہوں لیکن اس ٹویٹ کے بعد ایسا نہیں کروں گا کہ گاڑی والے کہیں اسے ہراسانی نہ سمجھیں
— Amer Raza (@MRaza78) May 16, 2022
سطوت سلیم نامی ایک صارف نے لکھا: ’اتنی پھرتیاں دکھانے سے پہلے انکوائری تو کرلینی تھی کہ وہ بچے کو دیکھ کر خوش ہورہاتھا یا ان کی اماں کو غلط فہمی ہوگئی تھی؟ عجیب ٹرینڈ چل پڑا ہے کسی کی بھی تصویر ٹوئٹر پہ لگادو اور بدنام کردو۔ سیف سٹی کیمرے میں دیکھا کہ وہ عورت کوتنگ کررہاتھا؟ لوگوں نے یہ نیا ہتھیار بنایا ہے ٹوئٹر کو۔‘
کچھ صارفین نے اس بات پر اعتراض کیا کہ مریم نے صرف تصویر شیئر کی کوئی ویڈیو نہیں جو کہ مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کا ناکافی ثبوت ہے۔
ایک صارف احمد عی شاہ نے لکھا: ’ہو سکتا ہے یہ آپ کی چھوٹی بیٹی کی مسکراہٹ کا ردعمل ہو۔ عموماً بچے جب والدین گاڑی چلاتے ہیں تو وہ اکثر بائیک سواروں کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہیں۔ اس کا تجربہ 1000 بار ہو چکا ہے۔ یہ چھوٹی سی اور معصوم مسکراہٹ میرا دن بنا دیتی ہے۔ یہ ہمدردی کا سٹنٹ ہے اسے درگزر کریں۔‘
May be it is reaction to your little daughter's smile.Normally kid's observe sorrounding while parents drive, they often smile whenever they looked at bikers. Have experienced it 1000 times.Some time this little and inocent smile made a day. It is sympathy stunt,avoid it.
— Ahmed Ali Shah (@Shah14Ali) May 16, 2022
اس ٹویٹ کے جواب میں مریم نے لکھا کہ ان کی بچی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھی تھی۔
صارفین کے ان ہی تبصروں پر لاہور سٹی ٹریف پولیس کے آفیشل ہینڈل سے بھی جواب دیا گیا کہ معطل ہونے والے وارڈن کے خلاف انکوئری کا آغاز کیا جائے گا۔