کئی سالوں سے امتحانات میں ناکامی کے بعد دلبرداشتہ طلباء اور طالبات میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ زیادہ تر واقعات چترال اور گلگت میں رونما ہو رہے ہیں۔ لیکن دیگر اضلاع میں بھی ایسے واقعات کی کمی نہیں۔
امتحانات میں جب بچوں کی اچھی پوزیشن آتی ہے تو والدین کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہر والد اور والدہ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے کے اچھے نمبر آئیں۔ اب یہ کہاں ممکن ہے کہ کلاس کے سب بچے برابر ہوں؟ جن بچوں کے اچھے نمبر آتے ہیں تو خاندان میں ان کی تعریفیں ہوتی ہیں، حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ہر ایک کی زبان پر تذکرے ہوتے ہیں۔ جس سے ماں باپ بھی پھولے نہیں سماتے۔ خوشی ومسرت کے اس لمحے میں رشتہ دار بھی بچوں کو تحفوں اور انعامات سے نوازتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جس بچے کے نمبر کم آتے ہیں اسے شدید خفت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسے کزنوں کے ساتھ کمپیر کیا جاتا ہے کہ تم سے وہ اچھا ہے۔ ہمارے خاندان کا نام بدنام کر دیا۔ حالانکہ خود اپنے بچے سے بھی پوزیشن سکول میں خراب ہوگی۔ میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ کسی بچے کو کم نمبر پر اس کے والدین نے دلاسہ دیا ہو کہ کوئی بات نہیں اگلے سال بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں جاو تو دنیا تمھاری ہوگی۔کسی بھی بچے کو فیل ہونے پر نہ ہی رشتہ داروں نے حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ الٹا لعن طعن کیا ہے۔
ہمارے ہاں ہمت اور حوصلے کا فقدان ہے۔ ہم ناکامی کو زندگی کی ناکامی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ انہیں بٹھا کر کبھی کہا گیا کہ بیٹا کوئی بات نہیں کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں۔ کسی نے اس ناکامی کی وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کی۔ وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن دباؤ بچے پر ہی ڈالی جاتی ہے۔ اُن سے بیٹھ کر بات کیجیے وجوہات جانیے کہ بچہ کیوں کمزور ہے۔ خود کے حالات پر نظر ڈالیے کہ گھر کے ماحول کی وجہ سے تو بچے پر برا اثر نہیں ہے۔ اس کی پڑھائی میں والدین کے لڑائی جھگڑے حرج تو نہیں ہیں یا بچے کو کوئی اور پریشانی سکول یا باہر دوستوں سے تو نہیں۔ اس کا ماحول چیک کیجیئے۔ اس سے بات کیجیے حقائق جانئیے۔ آپ نیا دستور بنائیں اپنے بچوں کی ناکامی کو سیلیبریٹ نہ کریں لیکن زندگی اور موت کا مسئلہ تو نہ بنائیں۔ انہیں ڈانٹیں مت پیار دیں۔
ایسا ایک واقعہ انڈیا میں رونما ہوا جس میں ایک طالب علم آشوویاس اپنی محنت کے باوجود کامیاب نہ ہوسکا مگر اس کے والد نے گھر میں شادی کا ماحول بنایا تھا۔ دروازے پر دھوم دھام سے ڈھول بجا یا جا رہا ہے چھت پر آتش بازی اور گھر کی چاردیواری پر شامیانے کا بندوبست بھی کیا گیا تھا اردگرد کے تمام ہمسایوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ آشوبی اس کے کلاس میٹ اور ان کے والدین کو بھی مدعو کیا گیا تھا جبکہ والد صاحب نے اپنے دوست احباب کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی اور ان کے لیے کھانے کا پروگرام بھی ہوچکا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بیٹے نے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہو۔ بیٹے نے اپنے والد کو سرگوشی میں کہا آپ کو کہیں غلط فہمی ہو گئی ہے میں پاس نہیں بلکہ لیکن والد صاحب نے بیٹے کی ایک نہ سنی اور ناچتےگئے بعد میں سب کو کہا کہ آشوبی میرا بیٹا ہے یہ امتحان میں کامیاب ہو یا ناکام ہو یہ میرا بیٹا ہی رہے گا۔
جس طرح پاس ہونے پر باپ بیٹے کا رشتہ برقرار رہتا ہے اسی طرح فیل ہونے پر بھی رشتہ برقرار رہنا چاہیے۔ زندگی میں کامیابی امتحانات میں کامیابی پر موقوف اور منحصر نہیں اور نہ ہی یہ زندگی کا آخری امتحان تھا زندگی میں آگے اور بھی مزید بہت سے امتحانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں کل بھی اپنے بیٹے کے ساتھ تھا آج بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ہوں اور آئندہ بھی اپنے بیٹے کا ہاتھ تھام کر اس کی عارضی ناکامی پر اسی طرح شاندار تقریب کا اہتمام کروں گا۔ ’میں اپنے بیٹے کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ان والدین میں سے نہیں ہوں جو امتحانات میں ایک بار کی ناکامی کو زندگی کی ناکامی تصور کرلیتے ہیں اور بیٹے والدین کے ڈر سے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں میں ایسے والدین کو ناکام والدین سمجھتا ہوں جو اپنی اولاد کی فقط ایک ناکامی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔‘
اس تقریب کے توسط سے میں ان والدین تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ اپنی اولاد کو موقع دیجئے جیسے ان کی کامیابی پر ان کو مبارک باد دیتے ہیں اور خوشی کا اہتمام کرتے ہیں ایسے ہی ان کی ناکامی پر بھی ان کو حوصلہ دیجئے ان کا سہارا بنیں اور مستقبل میں زندگی کے امتحانات کی تیاری کے لیے ان کا ساتھ دیں۔