پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صرف دو دن کے نوٹس یعنی 25 مئی کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا، تاہم سوال یہ ہے کہ عوام اور خود پی ٹی آئی کے عہدیداران اور کارکنان اس مارچ اور بعد کی صورت حال کے لیے کتنے تیار ہیں۔
پشاور سے پریس کانفرنس میں عمران خان نے گذشتہ روز عوام کو مارچ والے دن اسلام آباد سری نگر ہائی وے پر دن کے تین بجے پہنچنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کو وہیں پر ملیں گے۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا کہ وہ خیبر پختونخوا سے مارچ کی قیادت کریں گے۔
عمران خان نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ ان کے اہم مطالبات میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا اور دوبارہ انتخابات کروانا شامل ہے۔
خیبر پختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور جس کو تحریکِ انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، پر عمران خان کا سب سے زیادہ انحصار ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ سب سے زیادہ عوام یہیں سے نکلیں گے۔ لیکن تازہ ترین اعلان کے مطابق مارچ کی کال بہت کم وقت کے نوٹس پر دی گئی ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی اور کارکنان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ پچھلے 40 دن سے تیاریوں میں مصروف ہیں، جن میں عوام اور کارکنان کو متحرک کرنا، انتظامات کی مختلف حلقوں، اضلاع اورگروپوں کی سطح پر تقسیم سرفہرست ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے لیے ان کی تیاریاں اتنی منظم ہیں کہ اس مرتبہ لانگ مارچ میں حصہ لینے والے اہم کارکنان کی ایک ڈیٹا فہرست بھی تیار کی گئی ہے، جس میں ان کے نام اور رابطہ نمبر ودیگر معلومات شامل ہیں، جب کہ لانگ مارچ کی حکمت عملی کے لیے صوبائی، ضلعی، نیبرہڈ کونسل، یونین کونسل، میں پارٹی کے عہدیداران سمیت جنرل یوتھ پلیٹ فارم کو متحرک کرکے ان کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ عوام میں شعور پھیلانے کے ساتھ ساتھ انہیں متحرک بھی کیا جائے۔
صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی حکومت اور پارٹی کے کارکنان ذہنی طور پر پارٹی قیادت کی اس ’کال‘ کے لیے تیار تھے۔ ‘ہم 27 مارچ سے ان تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پارٹی کے ڈاکٹر فورمز اور وکلا فورمز کو بھی متحرک کرلیا گیاہے، جن میں سے کچھ فرنٹ لائن پر اور کچھ پس پشت کام کریں گے۔‘
کامران بنگش نے بتایا کہ ان کی جماعت نے لانگ مارچ کی تیاری اور انتظامات کے لیے ایک ’مانیٹرنگ سیل‘ بھی بنائی ہے، جو تمام اضلاع کی کارکردگی پر نظر رکھتی رہی ہے، اور ان کے متحرک یا غیر فعال ہونے سے متعلق رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر پارٹی کے چیئرمین کے ساتھ شیئر کی جاتی تھی۔
کامران بنگش نے کہا: ’فی الحال لانگ مارچ کا ہی اعلان ہوا ہے، لہذا آگے کی حکمت عملی عمران خان اسی دن عوام کو بتائیں گے کہ آیا دھرنا دینا ہے یا مزید آگے بڑھنا ہے۔‘
انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی، جن کے مطابق، خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل اور فنڈز کو پی ٹی آئی جلسوں یا لانگ مارچ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’ہم تمام ارکان صوبائی اسمبلی نے اپنی جیبوں سے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ٹرانسپورٹ، کھانے اور دیگر اخراجات بھی ہم اپنی جیبوں سے ادا کررہے ہیں۔ صرف تین دن قبل ایک کنونشن میں ہم سب ارکان اسمبلی نے فی بندہ 50 ہزار روپے کا حصہ ڈالا۔ ہمارا کام چندوں پر ہی چلتا ہے۔‘
سکیورٹی اور دیگر انتظامات کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کے عہدیداران کے مطابق کافی کام کیا گیا ہے اور صرف 500 کے قریب کارکنان کو صرف عمران خان کی سکیورٹی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
لانگ مارچ کے شرکا اور پارٹی قیادت کی سکیورٹی کا ٹاسک سنبھالنے والے مینہ خان آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ وقت میں کارکنان کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی بنی گالہ میں عمران خان کے گھر کے پاس پڑاؤ ڈالے ہوئے ان کی حفاظت پر معمور ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی کارکنان لانگ مارچ کے دوران بھی سکیورٹی کے فرائض سنبھالیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’خیبر پختونخوا میں یونین کونسل اور ویلیج ونیبرہڈ کونسل کی سطح پر بازاروں میں آگہی پھیلانے کے لیے پمفلٹس تقسیم کرلیے گئے ہیں۔ عوام انتہائی پرجوش ہیں۔ ہمارے نوجوان کب سے اس اعلان کے منتظر ہیں، 25 کی تاریخ تک انتظار کرنے پر وہ راضی نہ تھے۔‘
لیکن پی ٹی آئی پشاور سٹی کے صدر عرفان سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ’ یہ سچ ہے کہ ہم سب اس اعلان کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے، لیکن یہ اعلان اس قدر شارٹ نوٹس پر ہوگا، یہ ہم میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ٹرانسپورٹ کے معاملات کافی وقت پر طے کیےگئے تھے، البتہ کسی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے کارکنان کو کیا احتیاطی اور دفاعی تدابیر اختیار کرنے ہوں گے، یہ معاملات دو دن میں دیکھنا کافی چیلنجنگ بن گیا ہے۔‘
خواتین کی تیاریاں
پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے، جس نے ملک میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کو سیاست کی جانب رغبت دلائی، یہی وجہ ہے کہ ان کی اچھی خاصی تعداد دھرنوں میں شریک ہوتی تھی۔
عمران خان کے 22 مئی کو لانگ مارچ کے اعلان میں خواتین کو بھی آزادی مارچ میں شامل ہونے کی دعوت شامل تھی، جس میں انہوں نے کہا: ’میں تمام خواتین کو بھی دعوت دے رہا ہوں کیونکہ حالیہ واقعات پر میں آپ سب کے غم وغصے سے واقف ہوں۔ ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘
خیبر پختونخوا میں خواتین کے کیا انتظامات ہیں، اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی خواتین ارکان اسمبلی نے لانگ مارچ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے کئی میٹنگز کیں بلکہ 19 مئی کو انہوں نے پشاور میں صرف خواتین کا جلسہ منعقد کرکے خواتین کا ’پاور شو‘ دکھانے کی ایک کوشش بھی کی۔
مختص نشست پر پی ٹی آئی کی رکن صوبائی اسمبلی عائشہ بانو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی جماعت کی تمام خواتین نے مختلف ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں، اور صرف ان کی جانب سے 25 تاریخ کے لیے 20 کوسٹرز بلائی گئی ہیں۔
’ان 20 کوسٹرز کا خرچہ میرے شوہر، اور رشتہ داروں نے اپنی جیبوں سے برداشت کیا ہے، جو کہ مردوخواتین دونوں کے لیے ہیں۔ تاہم ہم خواتین، خاص طور پر جن کے ساتھ بچے ہیں، ان پر جانے کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں، کیونکہ جب اس قسم کی صورت حال میں آپ نکلتے ہیں، تو ہر طرح کے حالات سامنے آسکتے ہیں۔‘
عائشہ بانو کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ہم جماعت ایم پی ایز اور پارٹی خواتین کارکنان کو وقتاً فوقتاً سیفٹی اور دفاع سے متعلق پیغامات ازبر کرائے جاچکے ہیں۔