پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقے وزیرستان کے درمیان پہاڑی سلسلے ’کوہ سلیمان‘ میں پچھلے 16 دن سے چلغوزوں کے جنگل میں لگی آگ کے نتیجے میں اب تک مقامی زمینداروں کے مطابق اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ تاہم آگ پر پوری طرح سے اب بھی قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
زمینداروں کا موقف ہے کہ اگر صوبائی و وفاقی حکومت وقت پر پہنچتی اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جاتے تو آگ پر بروقت قابو پایا جاسکتا تھا۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت ایمرجنسی نافذ کرتے، مل کر تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آگ قابو کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی، یا پھر بین الاقوامی امداد طلب کی جاتی۔‘
’لیکن نہ تو انتظامات کیے گئے اور نہ ہی حکومتوں کی جانب سے اتنے بڑے المیے پر سنجیدگی دکھائی گئی۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہزاروں سال میں ایک جنگل بنتا ہے۔ اس کی تباہی کو قومی سانحہ سمجھا جانا چاہیے۔
سردار حسین بابک نے کہا کہ پشتونوں کی معیشت پہلے دہشت گردی اور اب ہر سال ان کے جنگلات میں آگ لگنے سے تباہ وبرباد ہورہی ہے۔
’اس پر ستم یہ کہ جب کوہ سلیمان میں اگ لگی تو 10 دن اس کا تماشا دیکھا گیا اور بعد میں ناکافی سہولیات سے بجھانے کی کوشش کی گئی۔ ان جنگلات میں چیڑ، چلغوزے، نختر، شیواہ، بنج، پیہچ جیسے قیمتی درخت تھے، جن کی عمریں 100 سال سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ ان میں قدرتی میووں کے باغات ہیں، جن سے معیشت وابستہ ہوتی ہے۔ یہ اربوں کا نقصان ہے۔‘
بابک نے بتایا کہ جہاں خیبر پختونخوا کے جنگلات میں قیمتی درخت اور پودے ہیں وہیں ان میں نایاب پرندے اور جانور بھی ہیں، جو آگ کی نذر ہوچکے ہیں۔
ضم اضلاع میں کنزرویشن ڈپارٹمنٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس بعض بنیادی ضروری سامان جیسے کہ پانی کی ٹینکی، آگ بجھانے کے آلات، دستانے، جوتے وغیرہ بھی دستیاب نہیں تھے جس کے لیے انہوں نے ایک پی سی ون تیار کر لیا ہے۔
ادارے کے ڈپٹی فارسٹ آفیسر سید لطیف حسین نے بتایا کہ پاکستان میں چونکہ اس طرح کے واقعات پہلے سامنے نہیں آتے تھے اسی لیے عوام اور نہ ہی محکمے کسی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔
ماحولیاتی جائزہ
ماحولیاتی سائنس پر ایسٹ اینگلیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹر پروفیسر آصف خان خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا کے کُل دس ہزار موسمیاتی سٹیشن، سیٹلائٹ رپورٹس، انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج اور دیگر مختلف ادارے ہر سال دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ جائزوں میں مرتب کردہ رپورٹس کے مطابق، 1850 کے مقابلے میں دنیا کے درجہ حرارت میں 1.2 ڈگری سنٹی گریڈ اضافہ ہوچکا ہے، جس کو خشک سالی سمیت موجودہ مختلف آفات اور مسائل کی وجہ سمجھاجاتا ہے۔
ان اداروں کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ مختلف گیسوں کا اخراج ہے، جو کہ نہ صرف کارخانوں اور گاڑیوں سے بلکہ درختوں کی کٹائی اور جنگلوں کے جلنے سے بھی وافر مقدار میں خارج ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر آصف نے کہا کہ ماحولیاتی سائنسدان سمجھتے ہیں کہ اگر دنیا میں اسی طرح مختلف زہریلی گیسوں کا اخراج جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک دنیا کا درجہ حرارت سات سے آٹھ ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے، نتیجتاً دنیا میں رہنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
ڈاکٹر خٹک نے کہا کہ وائلڈ فائر کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، تاہم ان میں 85 سے 90 فیصد وجوہات انسانی جب کہ باقی دس یا پندرہ فیصد قدرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جنگلات جلنے کے جہاں ماحولیاتی، معاشرتی اور معاشی اثرات ہوتے ہیں وہیں اس کی وجہ سے ہوا کی کوالٹی بھی خراب ہوجاتی ہے۔
’کئی قسم کی زہریلی گیسیں ہوا میں پھیل جاتی ہیں۔ وائلڈ فائیر کی وجہ سے ہوا میں ذرات بھی پھیلتے ہیں جو خون میں شامل ہوکر جسم کے مختلف اعضا میں پہنچ کر خطرناک بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔‘