پاکستان میں رواں سال پولیو کا تیسرا کیس سامنے آنے کے بعد انسداد پولیو مہم جاری ہے اور صحت کے رضاکار بچوں کو اس مرض سے نجات دلانے میں اپنے کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
یاد رہے کہ 27 جنوری 2021 کے بعد تقریباً 15 ماہ تک پاکستان میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا، لیکن پھر بالترتیب 22 اور 30 اپریل کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں دو کیس سامنے آئے، جہاں ایک 15 ماہ کے بچے اور ایک دو سالہ بچی میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔
بعدازاں 15 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ کے ایک بچے میں پولیو وائرس کا تیسرا کیس رپورٹ ہونے کے بعد رواں ہفتے انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا گیا ہے اور ملک بھر میں چار کروڑ 30 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
ملک بھر میں جاری انسداد پولیو مہم کے سلسلے میں کراچی کے ایک علاقے میں ڈیوٹی پر تعینات ہیلتھ ورکر عظمیٰ خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’تیسرا کیس سامنے آنے کے بعد صورت حال بہت سنگین ہے۔‘
مزید پڑھیے: پولیو مہم: افواہوں سے کتنا نقصان ہوا؟
عظمیٰ نے بتایا: ’ہمارا ہدف ہر بچے تک پہنچنا ہے اور جو افراد متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرکے کراچی آئے ہیں ہم ان کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ان کی میپنگ کر رہے ہیں تاکہ پولیو وائرس کے دیگر آبادیوں میں پھیلنے کے خطرے کو کم سے کم کیا جائے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس مقامی وبا کے طور پر اب بھی موجود ہے۔ البتہ دونوں ممالک میں حالیہ سالوں میں رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے۔