فرانس میں جاری کین فلم فیسٹیول میں پاکستانی کی پہلی فلم ’جوائے لینڈ‘ نے ناظرین کا دل جیت لیا، جس پر فلم کے ہدایت کار اور اداکاروں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ امید بھ ظاہر کی پاکستانی ناظرین بھی اسے دیکھا پسند کریں گے۔
رواں ہفتے جب ایک مسلمان ملک میں خواجہ سرا رقاص کے دلیرانہ موضوع پر بنائی گئی فلم کی کین میں نمائش ہوئی، تو ہال میں موجود ناظرین نے اس کے لیے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ فلم ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے پدرشاہی خاندان کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اور اس کے والد کی توقع ہے کہ اس کی بیوی تین بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے کو جنم دے گی۔ مگر وہ اس کی بجائے ایک تھیٹر ٹروپ کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کی ڈائریکٹر خواجہ سرا خاتون کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ورائٹی میگزین نے فلم کی تعریف میں لکھا: ’بہت تازہ، ہم مسلسل حیران ہیں‘، جبکہ فلمز پر تبصرہ کرنے والی ویب سائٹ ’ڈیڈ لائن‘ نے فلم کو ’فکر انگیز، اچھے انداز میں بنائی گئی اور متوجہ کر لینے والی‘ قرار دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلمی میلے میں موجود بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستان خواجہ سراؤں کو امتیازی سلوک کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کرنے والے اولین ملکوں میں شامل ہے۔
پاکستان نے 2009 میں خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے طور تسلیم کر لیا تھا اور 2018 میں پہلا پاسپورٹ جاری کیا گیا جس میں جنس کے خانے میں خواجہ سرا درج تھا۔
ہدایت کار صائم صادق نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’پاکستان بہت ہیجانی اور دو انتہاؤں والا ملک ہے۔ بلاشبہ آپ کو ایک جانب کسی مخصوص برداری کے خلاف تعصب ملے گا لیکن آپ کو یہ ترقی پسند قانون بھی ملتا ہے جس کے تحت بنیادی طور پر ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ اپنی جنس کی شناخت کروائے اور وہ تیسرے جنس کے طور پر بھی اپنی شناخت کروا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس قانون پر مکمل عملدرآمد کیا جا رہا ہے؟ بلاشبہ نہیں۔ لیکن قانون سازی میں تبدیلی شروع ہوئے صرف چار سال ہوئے ہیں۔‘
صائم صادق کہتے ہیں کہ ہندوستان میں 19 ویں صدی میں برطانوی راج کے قیام سے پہلے خواجہ سرا محرومیوں کا شکار نہیں تھے۔
صادق کے مطابق: ’وہ فن اور شاعری کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ وہ ایسے لوگ تھے جنہیں شاہی خاندان کے لوگوں کو آداب سکھانے اور شہزادے شہزادیوں کو تعلیم دینے کے لیے کہا جاتا تھا۔ یہ ان کے لیے معاشرے میں جگہ تھی۔‘
صادق کا مزید کہنا تھا کہ آج پاکستان میں خواجہ سرا اتنی آزادی کے ساتھ زندگی نہیں گزارتے جتنی فرانس میں گزارتے ہیں۔ ’لیکن صورت حال ایسی بھی نہیں کہ جیسی کوئی مسلمان دنیا کے بارے میں سوچتا ہے۔ بعض سطح پر خواجہ سرا اس سے زیادہ آزاد ہیں جتنی آپ توقع کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’جوائے لینڈ‘ یہ واضح کرتی ہے کہ خواجہ سراؤں کو زیادہ تر انہی مسائل کا سامنا ہے جو پاکستان میں ان خواتین کو ہے جن کی جنس کا تعین پیدائش کے وقت ہو جاتا ہے جہاں دوسرے تمام لوگوں کے برعکس معمول کے جنسی رجحان کے مالک مرد حضرات کو اپنی خواہشات کو جانچنے کی زیادہ آزادی ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صادق کہتے ہیں: ’تاہم پیدائشی طور پر خواتین اور خواجہ سرا خواتین کے درمیان ایک اہم فرق موجود ہے۔ خواتین گھر تک محدود کیے جانے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں اور خواجہ سرا خواتین کے لیے صورت حال تقریباً اس کے برعکس ہے، وہ گھر کے اندر اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ اپنی خاندانوں کے ساتھ رہنے کے لیے لڑ رہی ہیں تا کہ سڑکوں پر دھکیلے جانے سے محفوظ رہ سکیں۔‘
فلم میں خواجہ سرا ڈانسر بیبا کا کردار علینہ خان نے ادا کیا جو خود بھی خواجہ سرا خاتون ہیں۔
انہوں نے پیشہ ور اداکارہ نہ ہوتے ہوئے 2019 میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے توسط سے صائم صادق کی مختصر دورانیے کی فلم ’ڈارلنگ‘ میں کردار کے لیے آڈیشن دیا۔ انہیں فلم میں کام کا موقع مل گیا اور انہوں نے ہدایت کار کے ساتھ کام شروع کر دیا۔
علینہ خان نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے کردار بیبا اور میری جدوجہد ایک جیسی ہے لیکن میرے مقابلے میں بیبا زیادہ غصہ کرتی ہے۔‘
علینہ خان نے پہلی مرتبہ ’جوائے لینڈ‘ کو کین میں ہی دیکھا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں فلم دیکھ کر فخر محسوس ہوا اور وہ جذباتی ہو گئیں۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے انہیں (فخر اور جذبات کو) اکٹھا رکھنے کی کوشش کی کیونکہ میں کوئی گڑبڑ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن استقبال شاندار تھا۔ ناظرین میں سے بعض لوگوں نے رونا شروع کر دیا اور تب میں اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکی اور خود بھی رونا شروع کر دیا۔‘
علینہ خان کو امید ہے کہ ایک بار ریلیز ہونے کے بعد لوگ اسے دیکھنا پسند کریں گے۔
انہوں نے کہا: ’اس فلم میں سبھی کچھ ہے۔ مرد، خواتین اور صنفی سیاست اور مختلف قسم کے مسائل جو تقریباً ہر کوئی بیان کر سکتا ہے۔ پاکستان میں ناظرین اس فلم کو سمجھ سکیں گے اور اس میں چھپے پیغامات کو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا لوگوں کے بارے میں فلم کا بڑا پیغام یہ تھا کہ ’خواجہ سرا برداری کے افراد کچھ بھی کر سکتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا خاتون کی طرح۔‘
فلم میں اداکاری کرنے والے ثروت گیلانی نے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ سب ایک خواب کے سچ ہونے جیسا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’آپ کوئی قومی ایوارڈ تصور کرتے ہیں، مگر یہ، پاکستان کی اتنے متعبر سٹیج پر نمائندگی کرنا، کین فلم فیسٹیول جیسے پلیٹ فارم پر، یہ ناقبل یقین ہے ایسا محسوس ہوا کہ ساری سخت محنت جو لوگ کرتے ہیں، وہ مشکلات جن کا ہم پاکستان میں آرٹسٹس کے طور پر سامنا کرتے ہیں، یہ اس کا پھل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انڈپینڈنٹ سینیما اتنا مشہور نہیں کہ بڑے نام بھی اس طرح کی فلموں میں کام کریں۔
کین میں داد سے وہ پر امید پاکستان واپس جا رہی ہیں۔ ’میں پرامید ہوں کہ کم سے کم ہمارے لوگ سمجھیں گے یہ بھی ایک قسم کا سینیما ہے جو کامیاب ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں نہیں، مگر مقامی طور پر۔ تو یہ ایک امید ہے جس کے ساتھ ہم گھر واپس جا رہے ہیں۔