مقامی میڈیا پر چلتی افواہوں کو رد کرتے ہوئے ترجمان وزارت خارجہ پاکستان نے کسی بھی وفد کے اسرائیلی دورے کے تصور کو واضح طور پر مسترد کردیا ہے۔
جاری کیے گئے بیان کے مطابق زیر بحث دورہ غیر ملکی این جی او نے کیا تھا جو پاکستان میں نہیں ہے۔
فارن آفس کے مطابق مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا موقف واضح اور غیر مبہم ہے نیز پالیسی میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کی گئی جس پر قومی اتفاق رائے نہ ہو۔
پاکستان فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی مستقل حمایت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد ، قابل عمل اور متضاد فلسطینی ریاست کا قیام خطے میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔
قبل ازیں وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کسی سرکاری یا نیم سرکاری وفد نے اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات نہیں کی۔
پاکستانی وزیر نے حکومتی مؤقف پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’حکومت پاکستان کی پالیسی غیر مبہم اور واضح ہے اور پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہماری تمام تر ہمدردیاں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں۔‘
خیال رہے پاکستان نے 1948ء لے کر آج تک سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ہیں۔
خیال رہے سوئٹرزلینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے دوران 25 مئی کو اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے کہا تھا کہ ان کی حال ہی میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے وفد سے ملاقات ہوئی تھی۔
ان کا اس ملاقات کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’میں کہوں کہ وہ ایک بہترین تجربہ تھا کیونکہ اسرائیل میں اب تک پاکستانی رہنماؤں کا کوئی وفد نہیں آیا ہے۔‘
اسرائیلی صدر کی یہ ویڈیو پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور خصوصاً سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے اسرائیلی صدر کے بیان کو بنیاد بناکر موجودہ حکومت پر تنقید کی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے خبر کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’امپورٹڈ حکومت‘ اور ان کے ساتھیوں نے امریکہ سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کردیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی آج اپنے جلسے میں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے۔