پاکستان اور ترکی کے 75 سالہ تعلقات میں کیا اہم رہا ہے؟

حکومتی ترجمان کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف آج سے تین روزہ دورے پر ترکی جا رہے ہیں، جس میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوگی۔

17 نومبر 2016 کو ترک صدر کی لاہور آمد پر پھولوں کی سجاوٹ (اے ایف پی)

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف 31 مئی سے دو جون تک ترکی کا دورہ کریں گے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کے روایتی بااعتماد دوستوں اور برادر ممالک سے دوطرفہ تعلقات کی تجدید کے سلسلے کی کڑی ہے۔

ایک ٹویٹ میں پیر کو انہوں نے کہا کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کے علاوہ سرمایہ کاری، تجارت، صحت، تعلیم، ثقافت اور باہمی مفاد کے دیگر شعبہ جات میں تعاون کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاک ترکی بزنس کونسل کا اجلاس اور وزیراعظم کی ترک سرمایہ کاروں اور تاجروں سے ملاقاتیں بھی ہوں گی۔ وزیراعظم ترک ہیرو مصطفیٰ کمال اتاترک کے مزار پر حاضری بھی دیں گے۔

ان کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ہمراہ وزیراعظم ترکی اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر یادگاری نشان جاری کریں گے۔

صدر اردوغان وزیراعظم کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیں گے۔

پاک ترک اقتصادی تعاون

پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرپا اقتصادی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے۔ لیکن دونوں حکومتوں کا خیال ہے کہ انہوں نے تیزی سے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات میں معاشی صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔

فروری 2021 میں صدر اردوغان کے پاکستان کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے تزویراتی معاشی فریم ورک کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت سائنس اور ٹیکنالوجی، دفاع، سیاحت، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون کیا جائے گا۔ پاکستان ترکی فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) پر ابھی کام  جاری ہے، ساتھ ہی ساتھ پاکستان-ایران-ترکی کارگو ٹرین سروس کی بحالی پر بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم اس حوالے سے خدشات ابھی موجود ہیں کہ یہ تینوں ممالک اس منصوبے کے اخراجات کیسے برداشت کریں گے۔

سیاحوں اور کاروباری افراد کی نقل و حرکت میں سہولت کے لیے دونوں ممالک گذشتہ برس ایک سٹیزن شپ معاہدے پر بھی دستخط کر چکے ہیں اور پاکستان نے اس برس ای ویزا کی سہولت کا آغاز کیا ہے۔

تاہم ترکی کے وزیر خارجہ نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ 80 کروڑ ڈالر پر مبنی دوطرفہ تجارت ناکافی ہے اور اسے اس کی اصل حیثیت کے مطابق بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تاریخی پس منظر

دونوں ممالک کی مشترکہ مسلم شناخت کا پاکستان ترکی تعاون سے گہرا تعلق ہے۔ دونوں ریاستیں سیکولر قائدین محمد علی جناح اور مصطفیٰ کمال اتاترک کی کاوشوں سے قائم ہوئی تھیں۔

برطانوی سامراج اور استبداد کے خلاف دونوں کی باہمی لڑائی کی تاریخ 1919 سے شروع ہوتی ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے پہلی عالمی جنگ سے قبل کی سلطنت عثمانیہ کی سرحدوں کی بحالی کے لیے تحریک خلافت کا آغاز کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز سے پاکستان اور ترکی کے درمیان  تعاون تین امور کے گرد گھومتا ہے: دہشت گردی کا مقابلہ، افغانستان اور دیرپا دفاعی تعاون۔

پاکستان اور ترکی مقامی اور بین الاقوامی دونوں طرح کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ دونوں ملک علیحدگی پسند تحریکوں سے مسلسل نبرد آزما ہیں، پاکستان میں بلوچستان اور ترکی میں کردوں کی تحریک۔

پاکستانی اور ترک دفاعی و حکومتی اراکین کے مابین پاکستان میں لڑاکا طیارے اور میزائل کی تیاری کے سلسلے میں بھی اعلیٰ سطحی مذاکرات منعقد ہوئے ہیں تاہم ابھی اس پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔

پاکستان نے 2018 میں ترک دفاعی کمپنی کے ہمراہ کراچی شپ یارڈ کی تاریخ کے سب سے بڑے جنگی جہاز کی تیاری کے لیے بھی معاونت کی تھی۔

اسلحے کی تیاری کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔ ٹرکش ایروسپیس انڈسٹریز نے پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تحقیق و ترقی کے لیے ایک شعبہ قائم کیا ہے جو سائبرسکیورٹی، ڈرونز کی نگرانی اور راڈار ٹیکنالوجی پر کام کرے گا۔

پاکستان اور ترکی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کا بھی مسلسل دعویٰ کیا ہے اور اسی طرح  ایک دوسرے کی علاقائی تنازعوں میں بھی حمایت کی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو آرمینیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے۔ پاکستان، ترک اتحادی آزربائیجان کی جانب سے ناگورنو- کاراباخ کے متنازع علاقے پر دعوے کی بھی حمایت کرتا ہے۔

جواب میں ترکی کھلم کھلا کشمیر کی اتنی حمایت کرتا ہے کہ وہ بھارت کو برہم کرتی ہے کیونکہ وہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اور اردوغان کی حمایت کو ’کھلے عام مداخلت‘ قرار دیتا ہے۔

ستمبر 2020 میں صدر اردوغان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے  کے ایک سال بعد کشمیر کو ’ایک سلگتا ہوا تنازع‘ قرار دیا تھا۔

دونوں ممالک نے فلسطین کے تنازعے پر بھی بھرپور حمایت کی ہے اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ کسی ایسے سیاسی تصفیے کی حمایت نہیں کرتے جو فلسطینی عوام کی حمایت نہ کرتا ہو۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان