سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سرکاری ملازمتوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کے متعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوا ایم) پاکستان کی درخواست مسترد کردی ہے۔
اس کے علاوہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی ایم کیو ایم پاکستان کی استدعا بھی مسترد کردی ہے۔
سندھ حکومت نے 2020 میں صوبے کے 38 سے زیادہ سرکاری محکموں میں پانچ سے 15 گریڈ کی 21 ہزار سے زیادہ بھرتیاں کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ان بھرتیوں کے امیدواروں سے ٹیسٹ لینے کے لیے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سکھر کی خدمات حاصل کی گئی تھیں تاکہ ان آسامیوں کے لیے اہل امیدواروں کا چناؤ کیا جا سکے۔
سندھ حکومت کے اس اعلان پر ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما اور ممبر قومی اسمبلی کشور زہرہ، اراکین صوبائی اسمبلی سید ہاشم رضا، غلام گیلانی، جاوید حنیف خان، وسیم الدین قریشی اور دیگر نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ ان آسامیوں کی ٹیسٹنگ کے لیے آئی بی اے کراچی کے بجائے آئی بی اے سکھر کو ٹیسٹنگ سروسز کا کانٹریکٹ دیا جانا خلاف ضابطہ ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے درخواست میں مزید کہا کہ بھرتیوں کے طریقہ کار میں بے ضابطگیاں ہیں جس کا مقصد کراچی کے نوجوانوں کو نوکریوں سے محروم کرنا ہے۔
آئی بی اے سکھر کے ٹیسٹنگ کے طریقہ کار کو چلینج کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان نے استدعا کی تھی کہ ادارے سے ان سرکاری آسامیوں کی بھرتیوں کا عمل روکا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم کی درخواست پر بھرتیوں کے خلاف حکم امتناع جاری کرتے ہوئے سندھ حکومت کو بھرتیوں سے روک دیا تھا۔ اس کیس کی کئی شنوائیاں ہوئی اور بدھ کو فیصلہ سنادیا گیا ہے۔
بدھ کو شنوائی کے دوران آئی بی اے سکھرکے وکیل مکیش کمار ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس معاملے پرلارجر بینچ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سرکاری آسامیوں کے لیے 11 لاکھ سے زیادہ درخواستوں آچکی ہیں۔ جن میں سے ایک لاکھ کے قریب امیدواروں کوشارٹ لسٹ کیا جاچکا ہے۔
شنوائی کے بعد عدالت کی جانب سے تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ایسی کوئی وجہ پیش نہیں کی گئی جس کی بنیاد پرفل بینچ تشکیل دیا جائے اور وکیل طارق منصور ایڈوکیٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پردلائل نہیں دیے بلکہ بینچ سے متعلق توہین آمیز ریمارکس دیے گئے۔