عدالت نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف وزیر اعلی حمزہ شہباز سمیت دیگر کی عبوری ضمانتوں میں 11 جون تک توسیع کردی ہے۔
حمزہ شہباز کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے عدالت نے آئندہ سماعت پر دیگر ملزمان کے وکلا کو دلائل کی ہدایت کردی۔
عدالت نے سلمان شہباز، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے نئے چالان کے مطابق وارنٹ گرفتاری دوبارہ جاری کیے گئے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ملزمان کے وارنٹ گرفتاری سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔
لاہور کی خصوصی عدالت میں ہفتے کو وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی نے عدالت سے دونوں ملزمان کو گرفتار کرنے کی اجازت مانگ لی۔
لاہور کی سپیشل سینٹرل کورٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی جہاں دونوں اپنے عہدوں کا حلف اٹھانے کے بعد تیسری بار پیش ہوئے۔
دوران سماعت حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہ ’گذشتہ دور حکومت میں بدنیتی پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنایا گیا۔ تمام ٹرانزیکشنز قانونی ہیں اور کاروباری لین دین ہے۔ حمزہ شہباز پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ایف آئی اے نے ڈیرھ برس تک تحقیقات کیں مگر کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔‘
دلائل میں کہا گیا حمزہ شہباز کے ذاتی اکاؤنٹس میں کوئی رقم نہیں آئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کا اس پر کیا کہنا ہے؟
جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے ملزمان پر الزامات کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت خارج کی جائے، ایف آئی اے کو ان کی گرفتاری درکار ہے۔‘
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ’ملزمان کا مقدمے میں کردار ابھی ثابت ہونا باقی ہے۔ اس لیے انہیں حراست میں لینے کی اجازت مانگی جارہی ہے۔‘
ایف آئی اے کی جانب سے اس موقف پر امجد پرویز نے دلائل دیے کہ ’ایف آئی اے نے شہباز شریف اورحمزہ شہباز سےجیل میں دو بار تفتیش کی اور اس کے بعد پانچ ماہ تک خاموش رہے۔‘
ایف آئی اے تفتیشی ٹیم کی جانب سے مشتاق چینی کے متعلق کہا گیا کہ ’اس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ جب کہ مشتاق چینی کو ملزم ہی نہں بنایا گیا۔ مشتاق چینی کا اعترافی بیان بھی چالان میں نہیں لگایا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل صفائی نے کہا کہ ’ان دونوں سیاسی رہنماؤں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے کارروائی کی گئی۔ اس کیس کی ساری تفتیش مکمل ہے۔ تمام شواہد دستاویز میں موجود ہیں۔‘
ایف آئی اے سے پوچھا ہے کہ ’جب چالان آگیا ہے کہ تو پھر گرفتاری کیوں ضروری ہے؟ جب چالان آگیا ہے تو پھر بھی تفتشی اسرار کرے کہ گرفتاری درکار ہے تو یہ بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔‘
امجد پرویز کے مطابق ڈیڑھ سال تک تحقیقات کی گئیں لیکن ایف آئی اے کوئی شواہد ریکارڈ پر نہ لا سکی۔ گذشتہ دور میں بدترین سیاسی انجینئرنگ کی گئی۔
ان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ بھی سیاسی انجینئرنگ کو حقیقت قرار دے چکی ہے۔
امجد پرویز نے موقف اپنایا کہ ’باپ بیٹا جب جیل میں تھے تو ایف آئی اے نے دونوں کو شامل تفتیش کیا۔ گذشتہ دور میں اپوزیشن لیڈرز کو دبانے کے لیے حکومتی مشینری کو استعمال کیا گیا۔ ایف آئی اے کے وکیل غلط بیانی کر رہے ہیں۔ ملزمان شامل تفتیش ہوئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سابقہ حکومت کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ کسی طرح انہیں جیل میں ڈالا جائے۔ حمزہ شہباز شوگر ملز کے نہ ڈائریکٹر رہے ہیں نہ شیئر ہولڈر رہے۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہونے کے بعد واپس چلے گئے۔
واضح رہے کہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس پہلے نیب میں چلایا گیا تھا پھر اس کیس میں ایف آئی اے کے ذریعے بھی مقدمہ درج کیا گیا جس کی سماعت لاہور کی خصوصی عدالت میں جاری ہے۔