اپنے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ وہ حکومت کرتے رہیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے وزیراعظم بورس جانسن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’یقیناً میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں ایک حکومت، ایک پارٹی کے طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔‘
صحافی نے ان سے سوال کیا کہ وہ تو 2018 میں سابق وزیراعظم ٹریزا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد ٹوریز کی صورت حال سے بھی بدتر حالات میں ہیں تو کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اچھا نتیجہ ہے۔ اس پر جانسن نے کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا، مثبت، حتمی، فیصلہ کن نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے، متحد ہونے اور کام کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اور ہم بالکل یہی کرنے جا رہے ہیں۔‘
بورس جانسن نے کہا: ’2019 کے مقابلے میں اب بہت سے ارکان پارلیمنٹ میری حمایت کر رہے ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں۔ ہم اس پر عمل کریں گے، ہمارے پاس ایک بہت بڑا ایجنڈا ہے۔ اب ہمیں ایک حکومت، ایک جماعت کے طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔‘
برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ’پارٹی گیٹ‘ سکینڈل کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے اختیارات پر سوال اٹھائے تھے جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جو منگل کو سامنے آنے والے نتائج کے مطابق ناکام ہوگئی ہے۔
پاکستانی وقت کے مطابق منگل کی صبح جاری نتائج میں بورس جانسن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں 148 جب کہ اس کے خلاف 211 ووٹ پڑے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق بورس جانسن اور ان کے عملے نے لندن میں اس وقت دفتر میں ایک پارٹی میں شراب نوشی کی تھی جب برطانیہ میں کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت لاک ڈاؤن تھا۔
منگل کو کنزرویٹوز کے چیئرمین سر گراہم بریڈی نے خفیہ رائے شماری کے بعد اعلان کیا کہ ’پارلیمانی جماعت کو وزیر اعظم پر اعتماد ہے۔‘
بی بی سی کے مطابق تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد بورس جانسن نے ان ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کا ساتھ دیا اور کہا کہ ’اب ہمیں بطور حکومت اور سیاسی جماعت متحد ہونے کی ضرورت ہے۔‘
اس کے برعکس تحریک عدم اعتماد پر لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ کنزرویٹو ارکان میں واضح تقسیم پائی جاتی ہے اور مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’کنزرویٹو اراکین پارلیمنٹ نے آج رات اپنا انتخاب کیا۔ انہوں نے برطانوی عوام کو نظر انداز کیا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو بورس جانسن اور ہر اس چیز کے ساتھ جوڑا ہے جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اب کنزرویٹو پارٹی کا خیال ہے کہ زندگیوں کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنے والی اچھی حکومت کا مطالبہ کرنا کچھ زیادہ مانگنا ہے۔ ’کنزرویٹو حکومت اب یہ سمجھتی ہے کہ قانون شکنی قانون سازی میں رکاوٹ نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’میں وعدہ کرتا ہوں کہ حالیہ مہینوں میں ہم نے جو فریب دیکھا اس کو مل کر ختم کریں گے۔ ہم ایک بار پھر اپنے ملک کو مقدم رکھیں گے، اس تھکی ہوئی حکومت سے چھٹکارا حاصل کریں گے اور برطانیہ کو دوبارہ پٹری پر لائیں گے۔‘
یاد رہے کہ سابق وزرائے اعظم جو تحریک عدم اعتماد سے بچ گئے تھے، بعد میں وہ کمزور ہو کر سامنے آئے۔
2018 میں ایسی ہی ایک اعتماد کے ووٹ کی کارروائی میں اس وقت کی وزیر اعظم ٹریزا مے نے جماعت کی 63 فیصد حمایت حاصل کی تھی۔