ایرک چین کے دارالحکومت بیجنگ میں قائم ایک سرکاری یونیورسٹی کے بین الاقوامی طالب علموں کے لیے قائم دفتر میں ملازمت کرتا ہے۔ وہ شادی شدہ اور ایک چار سالہ بچے کا باپ ہے۔
پچھلے دنوں جب بیجنگ تقریباً لاک ڈاؤن کی حالت میں تھا، وہ اپنے دفتر سے کام کر رہا تھا۔
اس کی رہائش یونیورسٹی میں تھی اور اس کے دفتر کے باقی افراد یونیورسٹی کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے تھے تو اسے ہی دفتر آ کر وہاں کے کام نمٹانے پڑتے تھے۔ وہ روزانہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ دفتر لاتا تھا اور کام کرتے ہوئے اس کا دھیان رکھتا تھا۔
میں اس کے دفتر کے باہر طالب علموں کے لیے بنے ہوئے ایک بڑے سے ہال میں اپنا کام کرتی تھی۔ میں روزانہ اسے اپنے ساتھ اپنا بچہ دفتر لاتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوتی تھی۔ پاکستان میں بھلا ایسا کہاں ہوتا ہے؟
میرے ماسٹر ڈگری کے سپروائزر کا شمار یونیورسٹی کے بہترین پروفیسروں میں ہوتا ہے۔ وہ اکثر شاموں کو یونیورسٹی کی سڑکوں پر اپنے دس سالہ بیٹے کا بستہ پکڑے اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ایرک کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اس کے بیٹے کا سکول بند ہونے کے بعد وہ اسے اپنے ساتھ ہی دفتر لانا شروع ہو گیا تھا۔ وہ اسے کھلونے دے کر اپنے پاس بٹھا لیتا تھا اور خود اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کام کرتا رہتا تھا۔
وقفے کے دوران دونوں باپ بیٹا پارکنگ میں کھڑی اپنی اپنی سائیکل نکالتے تھے اور کھانا کھانے گھر چلے جاتے تھے۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ ’کیا چین میں مردوں کا اپنے بچوں کو اپنے ساتھ اپنے دفاتر میں لانا عام ہے؟‘
اس نے حیران ہو کر کہا، ’کیوں نہیں۔ اس میں انوکھا کیا ہے؟ یہ میرا بچہ ہے۔ مجھے اس کا دھیان رکھنا ہے۔ کام کرنا بھی ضروری ہے۔ یونیورسٹی مجھے اپنا بچہ اپنے ساتھ لانے کی اجازت دیتی ہے تو میں اسے ساتھ لے آتا ہوں۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔‘
میں نے اسے بتایا، ’میرے ملک میں بچے عورت کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں۔ بہت کم مرد ہیں جو اپنے بچے کی اس طرح مکمل ذمہ داری اٹھاتے ہوں۔ میں ایسے کسی مرد کو نہیں جانتی لیکن ہو سکتا ہے آپ جانتے ہوں۔ میں البتہ ایسی بہت سی پروفیشنل خواتین کو جانتی ہوں جو اپنے بچوں کو اپنے ساتھ اپنے دفاتر لے کر جاتی ہیں۔ وہاں ڈے کیئر سینٹر ہو تو انہیں آسانی ہو جاتی ہے ورنہ انہیں بچہ اپنے ساتھ رکھ کر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔‘
میرے لیے اس کا مرد ہو کر اپنے بچے کی دیکھ بھال کرنا اور اسے اپنے ساتھ دفتر لانا حیران کن تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میری ایک خاتون رشتےدار، جو لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں، اپنی بیٹی کو بھرے پرے سسرال میں رہنے کے باوجود اپنے ساتھ یونیورسٹی لے کر جایا کرتی تھیں۔
ان کی یونیورسٹی میں ڈے کیئر سینٹر موجود تھا۔ وہ اپنی بیٹی کو وہاں چھوڑ کر آرام سے لیکچر دینے چلی جاتی تھیں۔
لیکن ڈے کیئر سینٹر کی یہ سہولت کتنے دفاتر میں موجود ہے؟ یہ سہولت صرف خواتین کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے؟ بچے تو مرد اور عورت دونوں کے ہوتے ہیں۔ ان کا دھیان رکھنے کی ذمہ داری صرف عورت کی کیوں ہوتی ہے؟
میاں اور بیوی دونوں نوکری پیشہ ہوں تو بیوی ہی کیوں بچہ اپنے ساتھ دفتر لے کر جائے گی؟
ایرک نے مجھے بتایا کہ اس کی بیوی گھر آنے کے بعد گھر کے بہت سے کام نمٹاتی ہے۔ وہ کچھ کاموں میں اس کی مدد بھی کرتا ہے، لیکن پھر بھی گھر کے زیادہ تر کام اس کی بیوی کو ہی کرنے پڑتے ہیں۔ وہ پھر وہ کام کرتا ہے جو وہ کر سکتا ہے۔ یعنی اپنے بچے کی دیکھ بھال۔ اس طرح اس کی بیوی اپنی نوکری اور گھر کے دیگر کام آسانی سے نمٹا لیتی ہے۔
کاش ہمارے ملک میں بھی یہ سوچ عام ہو۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں بھی۔
29 اپریل 2019 کو بلوچستان اسمبلی کی رکن مہ جبین شیران اپنے شیر خوار بچے کو اپنے ساتھ اسمبلی کے اجلاس میں ساتھ لے کر آئیں تو انہیں کہا گیا کہ اسمبلی میں بچوں کو لانا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہیں مجبوراً اپنے بچے کے ساتھ اسمبلی سے باہر جانا پڑا۔
انہوں نے بعد میں بتایا کہ اسمبلی میں موجود دیگر خواتین اراکین نے بھی ان کے حق میں آواز نہیں اٹھائی۔
ستمبر 2021 میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں بچوں کی نگہداشت کے لیے ڈے کیئر سینٹر کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اس موقعے پر بھی یہی کہا گیا تھا کہ اس سے خواتین ارکان کو سہولت حاصل ہوگی جیسے مردوں کے بچے ہی نہ ہوں یا ان پر اپنے بچوں کی کوئی ذمہ داری نہ ہو۔
ڈے کیئر سینٹر تمام والدین کی ضرورت ہیں۔ انہیں کسی ایک جنس سے جوڑنا دوسری جنس کے ساتھ زیادتی ہے۔
بچے پر ماں باپ برابر کا حق رکھتے ہیں۔ انہیں اس کی ذمہ داریاں بھی برابر اٹھانی چاہیے۔
اس کے لیے ہمیں مردوں اور عورتوں کی سوچ تبدیل کرنی ہو گی جس طرح چین نے اپنے لوگوں کی سوچ تبدیل کی ہے۔