یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
نورین کا تعلق اس ملک سے ہے جہاں عورتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آدھا آسمان تھامتی ہیں۔ بقیہ آدھا آسمان ان کے ملک کے مرد تھامتے ہیں اور یوں ان کا نظام چلتا ہے اور کافی اچھا چلتا ہے۔
میں بات کر رہی ہوں ہمارے پڑوسی ملک چین کی اور اس کی ایک شہری نورین کی۔
نورین کا چینی نام تو جانے کیا ہے۔ ہم انہیں ان کے اردو نام نورین سے جانتے ہیں۔ چین میں لوگ اپنے سرکاری نام کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے نام بھی رکھتے ہیں۔ جو انگریزی بولتے ہیں ان کا ایک انگریزی نام بھی ہوتا ہے۔ مسلمان اپنے اصل نام کے ساتھ ساتھ ایک عدد اسلامی نام بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح نورین اور ان کے اردو دان ساتھیوں نے بھی اپنے اپنے اردو نام رکھے ہوئے ہیں۔
ہمیں بھی چینیوں نے ایک چینی نام دیا ہوا ہے۔ اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ اس بلاگ میں نورین اور انہیں ان کی اردو اور پاکستان سے محبت کی وجہ سے درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔
نورین پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔ انہوں نے چین اور پاکستان سے اردو زبان میں تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔
چین کی کئی جامعات میں اردو زبان کے شعبہ جات موجود ہیں۔ ایک ہماری یونیورسٹی میں بھی ہے۔ ان شعبہ جات میں داخلہ لینے والے چینی طالب علموں کو اردو زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔
نورین پچھلے کئی سالوں سے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ روانی سے اردو لکھتی اور بولتی ہیں۔
نورین مئی 2020 سے اپنے دفتر کی طرف سے فیس بک پر اپنا ذاتی بلاگ چلا رہی ہیں جس کے ذریعے وہ پاکستان میں لوگوں کو چین اور اس کی ثقافت سے روشناس کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
کبھی کبھار وہ چین میں موجود پاکستانی ریستوران بھی چلی جاتی ہیں اور وہاں مزے مزے کے پاکستانی پکوان کھاتے ہوئے اپنے فینز کے ساتھ فیس بک لائیو کرتی ہیں۔
ان کی طرح ان کی تین دیگر ساتھی خواتین عفت، چوشی اور تبسم بھی فیس بک پر اپنا اپنا ذاتی بلاگ چلا رہی ہیں۔ یہ تینوں بھی اردو زبان پر عبور رکھتی ہیں۔
ان چاروں کا ایک مشترکہ پیج ’اردو سسٹرز‘ کے نام سے بھی موجود ہے جہاں ان کے انفرادی پیجز پر کی گئی پوسٹس شیئر کی جاتی ہیں۔
ان چاروں کے فیس بک پیجز کا دورہ کریں تو وہاں ان کے مقصد کے علاوہ ایک اور چیز جو مشترک نظر آتی ہے وہ ہمارے پاکستانی بھائی اور ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی خواتین میں دلچسپی ہے۔
ایک طرف یہ چاروں انہیں چینی ثقافت کے رنگ دکھا رہی ہیں، دوسری طرف وہ انہیں اپنی ثقافت کے ایسے ایسے جلوے دکھا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ساتھ ہم بھی حیران ہیں۔
کوئی انہیں شادی کا پیغام دے رہا ہے تو کچھ بھائی نورین کی ہر پوسٹ کے نیچے ’آئی لو یو، نورین‘ لکھ رہے ہیں۔
عفت، چوشی اور تبسم کے پیجز پر بھی کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے۔
چوشی دیوارِ چین کی سیر کو گئیں تو ایک بھائی ان کی تھکن کا سوچ سوچ کر پریشان ہو گئے۔ چین کی سرحدیں کھلی ہوتیں تو فوراً یہاں آ جاتے اور ان کی تھکن دور کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتے، ضرور کرتے۔
نورین ایک بلند عمارت کی سیر کے لیے گئیں تو انہیں کسی نے ان کے بغیر اوپر جانے سے منع کر دیا کہ کہیں وہ اونچائی سے خوفزدہ نہ ہو جائیں۔
دیکھو بھائیو، ایسا نہ کرو۔
چین میں خواتین بغیر کسی خوف کے اپنی زندگی گزارتی ہیں۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ انہیں زندگی میں کبھی کسی نے چھیڑا ہو یا کبھی ان پر کسی نے آواز کسی ہو تو وہ سوچ میں پڑ جاتی ہیں۔ اپنی پوری جوانی، اور پچپن کھنگالنے کے بعد کہتی ہیں، نہیں۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔
کچھ ماہ پہلے کی بات ہے ہماری یونیورسٹی کی 19 سالہ لڑکی نے ملک کے ایک مشہور گلوکار پر جنسی ہراسانی کا الزام لگا دیا۔ اسے فوراً جیل بھیج دیا گیا اور یہ مزے سے پہلے کی طرح کلاسز لیتی رہیں۔
ہم نے کچھ چینی ساتھیوں سے پوچھا، ’اس کے بارے میں باتیں تو ہو رہی ہوں گی، یونیورسٹی نے کچھ کہا ہو گا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پتہ چلا کہ ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔
نورین اور ان کی ساتھیوں نے چین میں جو زندگی گزاری ہے پاکستان میں خواتین اس زندگی کے لیے سالوں سے جدوجہد کر رہی ہیں۔
انہیں اپنے دفتر کی وجہ سے آپ سے سلام دعا کرنی پڑ رہی ہے تو انہیں وہ تجربہ نہ دیں جو آپ سالوں سے اپنی ہم وطن خواتین کو دیتے آ رہے ہیں۔
ویسے بھی وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اپنے دفتر کے کہنے پر یہ پیجز چلا رہی ہیں۔ اول تو وہ آپ کے تبصرے دیکھتی بھی نہیں ہوں گی۔ دیکھتی ہوں گی تو آپ کی ان حرکتوں پر ہنستی ہی ہوں گی۔
خواتین میں آن لائن دلچسپی لینے سے نہ آپ کو کوئی فائدہ ملنا ہے اور نہ انہیں۔
یہاں معاملہ آگے بڑھنے کا چانس صفر ہے، اگر بڑھ بھی جائے تو وقت آنے پر یا تو آپ کی اماں نہیں مانیں گی یا آپ کا استخارہ ٹھیک نہیں آئے گا یا آپ کو ’پینک اٹیک‘ آنا شروع ہو جائے گا۔
تو بھائیو، اپنے اور ان کے حال پر رحم کھاؤ۔ وہ تمہیں چین دکھا رہی ہیں۔ وہ دیکھو۔ انہیں اپنا آپ نہ دکھاؤ۔ اس طرح ملک کا نام خراب ہوتا ہے۔ اپنی نہ سہی، اس کی فکر ہی کر لو۔