لاہور میں سپیشل کورٹ سنٹرل نے ہفتے کو منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہبازشریف اور وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کی عبوری ضمانتوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ’کنفرم‘ کردیا ہے۔
عدالت کا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو 10، 10 لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
سپیشل جج سینٹرل اعجاز حسن اعوان نے شہباز شریف سمیت دیگر کی عبوری ضمانتوں کی توثیق کی ہے۔
عدالت نے دیگر 14 شریک ملزمان کو بھی 2، 2 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے تمام ملزمان کو یہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے لیے صرف 7 روز کا وقت دیا ہے۔
اس سے قبل اسی عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز عہدہ سنبھالنے کے بعد تیسری بار پیش ہوئے تھے، عدالت میں سماعت کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے خود دلائل دیے جس کے بعد وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی عبوری ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
عدالت میں ایف آئی اے پراسیکوٹر کے مقابلے میں وزیر اعظم نے جج کی اجازت سے خود روسٹرم پر آکر اپنے خلاف شوگر ملز کے زریعے منی لانڈرنگ کے الزامات پر دلائل دیے تھے اور کہا تھا کہ ’جو کیس بنایا گیا وہ تو ان ملوں کے سی ای او یا عہدے دار ہی نہیں، کبھی سرکاری مراعات نہیں لیں جو کروڑں روپے بنتی ہیں لیکن بیس لاکھ پارٹی فنڈز لینے کا الزام لگایا گیا۔‘
عدالت میں شریف خاندان کے ملازم ملک مقصود کی ہلاکت سے متعلق خبروں کا تذکرہ ہوا تو عدالت نے ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ سے استفسار کیا کہ ’الیکٹرانک میڈیا پر خبر چل رہی ہے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں کیا اس کی تصدیق ہوئی ہے؟‘
انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’ابھی تک ملک مقصود کی وفات کی تصدیق نہیں ہوئی تاہم وہ دبئی میں مقیم ہیں۔ ہم نے تصدیق کے لیے انٹر پول کو لکھا ہے۔‘
واضح رہے ملک مقصود کی وفات کے بعد میت بھی پاکستان آچکی ہے اور اہل خانہ کے مطابق ان کی جمعہ کے روز لاہور میں تدفین بھی ہوچکی ہے۔
عدالت میں شہباز شریف کے دوسرے بیٹے سلمان شہباز اور دیگر ملزموں کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل نہ ہونے کی رپورٹ بھی جمع کرائی گئی۔
ایف آئی اے اور ملزموں کی جانب سے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے دلائل
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف شوگر ملز کے ذریعے مختلف طریقوں سے 16ارب روپے منی لانڈرنگ کا کیس چلایا جا رہا ہے، جس میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ضمانت پر ہیں۔
عہدے سنبھالنے سے پہلے بھی دونوں ملزمان عدالت پیش ہوتے رہے آج بروز ہفتہ بھی دونوں سپیشل کورٹ سینٹرل میں پیش ہوئے۔
اس سے قبل ان کے وکلا دلائل دیتے رہے لیکن آج وزیر اعظم شہباز شریف نے جج سے روسٹرم پر آنے کی اجازت مانگی جو منظور کر لی گئی۔
شہباز شریف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد کیس بنایا گیا۔ میرے پاس رمضان شوگر مل کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ جیل میں ایف آئی اے نے میرے پاس آکر تفتیش کی۔ تمام چیزیں ایف آئی اے کو بتائیں پھر ایف آئی اے خاموش ہوگیا مگر بعد ازاں دوبارہ ایف آئی اے نے جھوٹا مقدمہ درج کردیا۔‘
اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ’میرا حق ہے کہ میں اپنی ضمانت کے بارے عدالت کو حقائق بتاؤں۔‘
وزیر اعظم نے موقف اپنایا کہ ’ایف آئی اے کا کیس بھی وہی کیس ہے جو نیب نے بنا رکھا ہے، میرے خلاف آشیانہ اور رمضان شوگر مل کیس بنائے گئے۔‘
جج نے استفسار کیا کہ ان میں آپ کا کوئی شئیر نہیں ہے؟
جس پر شہباز شریف نےجواب دیا کہ ’میرا کوئی شئیر نہیں ہے۔‘
’آشیانہ کیس میں میرے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا گیا۔ میرے کیسز میں لاہور ہائی کورٹ مفصل فیصلہ دے چکی ہے۔ نیب میرے خلاف سپریم کورٹ گئی، اس وقت کے چیف جسٹس نے نیب کی میری ضمانت منسوخی کی درخواست میں کہا کہ کرپشن کے ثبوت کدھر ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے درجنوں پیشیاں بھگتیں، ایف آئی اے کی سرزنش ہوئی کہ چالان کیوں پیش نہیں کیا جا رہا۔‘
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ایف آئی اے والے کوئی گرفتاری کا راستہ نکال رہے تھے اس لیے چالان میں تاخیر کی گئی۔ میں شوگر ملز کا ڈائریکٹر ہوں نہ مالک ہوں اور شئیر ہولڈر ہوں۔ میرے عمل سے خاندان کی شوگر ملوں کو نقصان پہنچا۔‘
اپنے دلائل میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے اگر منی لانڈرنگ یا کرپشن کرکے منہ کالا کرانا ہوتا تو میں خاندان کی ملوں کو نقصان کیوں پہنچاتا؟ اپنے خاندان کی ملوں کو سبسڈی دے سکتا تھا جس کا میں قانونی اختیار رکھتا تھا۔‘
شہباز شریف کا موقف تھا کہ ’میں نے یتیموں اور بیواؤں کے خزانے کو انہی پر استعمال کیا۔ میں نے پنجاب کے خزانے کی حفاظت کی اسے ضائع نہیں کیا۔ میرے بچوں نے ایتھنول کی مل لگائی میں نے اس پر ٹیکس لگا دیا۔ مل والوں نے بڑا شور مچایا کہ یہ ٹیکس لگا دیا گیا یہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
’شوگر کاروبار سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ خدا کو حاظر ناظر جان کر کہتا ہوں ایف آئی اے نے جتنے بھی فیکٹس بتائے ہیں جھوٹے ہیں۔ میں نے 2011-12 میں بے روزگار غریب بچے بچیوں کو بولان گاڑیاں دیں۔‘
عدالت سے اجازت لے کر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پیشی کے بعد روانہ ہو گئے۔
ایف آئی اے کا موقف:
وزیراعظم کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ ’شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں جیل میں شامل تفتیش کیا گیا اور عدالت کے روبرو کوئی شہادت نہیں آ سکی۔‘
عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ’آپ لوگوں نے بینکرز کو گواہ نہیں بنایا؟‘
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’میں ریکارڈ سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کروں گا۔ عدالت کے روبرو سارا کیس آ چکا ہے۔ بطور پراسکیوٹر قانون کے مطابق ہی بات کروں گا، یہ نہیں ہو گا کہ پراسکیوٹر کے طور پر صرف ان کی مخالفت کروں۔‘
فاروق باجوہ نے کہا کہ ’ایف آئی اے نے جب یہ کیس کیا تو اس وقت ڈائریکٹ انکوائری نہیں ہوئی۔ بطور پراسکیوٹر میں نے ایسا نہیں کرنا کہ صرف ایسا ہی بیان دوں جس سے انہیں نقصان ہونا ہو۔‘
اس دوران امجد پرویز بولے کہ ’یہ ایسی کوشش کریں گے بھی تو ہم انہیں کرنے نہیں دیں گے۔‘
فاروق باجوہ نے جواب دیا ’میں ایسی حماقت نہیں کروں گا جس کا جواب میرے پاس نہ ہو۔ یہ سیاسی شخصیت ہیں ایسی سیاسی فگرز کے خلاف جب کیسیز کھلتے ہیں تو اسی طرح کی شہادت اکٹھی ہوتی ہے۔‘
عدالت نے استفسار کیا تھا کہ کہ کیا ہمارے پاس براہ راست شہادت ہے؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے مطابق سال 2013 اور سال 2015 میں گلزار کے اکاونٹ میں دو چیک جمع ہوئے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اب اپنے دلائل مکمل کرنے کی طرف آتا ہوں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ چالان آ چکا ہو اور عبوری ضمانت بھی چل رہی ہو۔ ایف آئی اے نے جتنی بھی شہادت اکٹھی کی اس میں بد نیتی نہیں تھی۔ ہم نے جتنی ہوسکتا تھا اس کیس میں شہادت اکٹھی کیں۔ ملزم مسرور انور اور عثمان شامل تفتیش نہیں ہوئے۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’اگر مان لیا جائے کہ یہ رقوم اکاونٹس میں منتقل ہوئی، مگر یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہی رقم ہے جو کرپشن سے حاصل کی گئی؟‘
پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ’ملزموں کے پاس اس بات کی وضاحت نہیں کہ گلزار کے اکائونٹ میں دو چیک کہاں سے آئے؟
’ایف آئی اے کا دعوی ہے کہ مسرور انور نے گلزار کے اکاونٹ سے رقم نکلوائی۔‘
عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس کیس پر رد عمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا کہ ’شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت پر فیصلہ محفوظ، جس طرح کی مہربانیاں عدالت نے اس مقدمے میں ملزمان پر روا رکھی ہیں سمجھ سے باہر ہے۔ فیصلہ محفوظ کا تکلف کیوں کیا؟ یہ مقدمہ صرف 16 ارب کا ہے اگر موٹر سائیکل چوری کا ہوتا پھر آپ دیکھتے ملزم کیسے پہلی تاریخ جیل جاتے۔‘