قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو امید ہے کہ وہ اپنی غیر معمولی رن سکورنگ کی وجہ سے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوا کر اپنا بچپن کا خواب پورا کریں گے۔
27 سالہ یہ کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ کے تینوں فارمیٹ میں بہترین پرفارم کر رہے ہیں اور گذشتہ ہفتے ون ڈے میں دو الگ الگ مواقع پر مسلسل تین سنچریاں بنانے والے پہلے بلے باز بن گئے ہیں۔
بابر اعظم نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اگر اکتوبر میں آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور آئندہ برس بھارت میں 50 اوورز کے ورلڈ کپ میں کامیابی نہ ملی تو ان کی شاندار فارم کا زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔
ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلے نمبر پر موجود ٹاپ آرڈر بلے باز باربر اعظم نے بذریعہ ای میل دیے گئے انٹرویو میں بتایا: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اپنی فارم سے لطف اندوز ہو رہا ہوں، لیکن میرا بنیادی مقصد اس فارم کے ساتھ اگلے ڈیڑھ سال میں پاکستان کے لیے دو ورلڈ کپ جیتنا ہے اور اگر ایسا ہوا تو مجھے لگے گا کہ میرے رنز سونے کے برابر ہیں۔‘
’کنگ بابر‘ کے نام سے معروف اس کھلاڑی نے دو جونیئر ورلڈ کپ 2010 اور 2012 میں اپنے ملک کے لیے سب سے زیادہ رنز بنائے لیکن پاکستان ٹائٹل جیتنے میں ناکام رہا۔
مزید پڑھیے: بابر اعظم کا بچپن کہاں اور کیسے گزرا؟
بابر اعظم نے 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں رنرز اپ ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں سنچری بنائی تھی لیکن پاکستان سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا۔
بابر اعظم کی جانب سے ایک بار پھر بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود گذشتہ سال متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سیمی فائنل میں پاکستان چیمپیئن آسٹریلیا سے ہار گیا تھا۔
’کرکٹ کا دیوانہ‘
بابر اعظم نے 12 سال کی عمر میں لاہور کی گلیوں اور میدانوں میں کرکٹ سیکھی۔
انہوں نے بتایا: ’جب میں نے سکول کے طالب علم کی حیثیت سے کرکٹ کھیلنا شروع کیا تو میرا خواب پاکستان کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنا، دنیا کا ٹاپ بلے باز بننا تھا تاکہ اس سے میری ٹیم تمام ٹائٹل جیتے۔‘
ان کے والد اعظم صدیق ہمیشہ سے ان کے نمبر ون مداح اور سب سے بڑے حمایتی رہے ہیں۔ بابر اعظم نے یاد کرتے ہوئے کہا: ’میں اپنے بچپن میں کرکٹ کا دیوانہ تھا اور یہ دیکھ کر کہ میرے والد نے میری مدد کی۔‘
عروج کے اس سفر میں سال 2007 کے دوران پاکستان اور جنوبی افریقہ کے ٹیسٹ میں بابر کا بال بوائے ہونا بھی شامل تھا، یہ میچ لاہور میں کھیلا گیا جب بابر اعظم کا خواب اس وقت پورا ہوا جب انہوں نے اپنے آئیڈل اے بی ڈی ویلیئرز کو قریب سے دیکھا۔ بابراعظم کہتے ہیں کہ ’جب میں چھوٹا تھا تو میں اے بی ڈی ویلیئرز کو فالو کرتا تھا۔‘
’مجھے ان کے کھیلنے کا طریقہ پسند ہے۔ یہ میرے لیے خوشگوار تھا، لہذا میں نے اسے اپنایا اور اس سے مجھے بولرز کو سمجھنے میں بھی مدد ملی۔‘
بابر اعظم اپنی کامیابی کو سخت تیاری اور کامیابی کے یقین سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آج کل بین الاقوامی کرکٹ اتنی سخت ہے اور کھلاڑی اتنے ماہر ہیں کہ اچھی تیاری کے بغیر آپ مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘
’پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ آپ کو خود پر یقین کرنا ہوگا اور میں اسی ذہنیت کے ساتھ میدان میں جاتا ہوں اور مثبت اور جارحانہ ارادے کے ساتھ بلے بازی کرتا ہوں۔ میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ حریفوں پر غالب رہوں اور اس کا فائدہ ہوتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جب آپ رنز سکور کرتے ہیں تو نہ صرف دنیا مانتی ہے اور شائقین خوش ہوتے ہیں بلکہ اس سے پوری ٹیم کو اس مقصد میں اپنا حصہ ڈالنے کی ترغیب ملتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بطور کپتان چیلنج لینا مجھے پسند ہے کہ میں سب آگے ہوں۔ اگر میں سب سے آگے ہوں گا، تب ہی میری ٹیم میرے پیچھے آئے گی اور رن سکورنگ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: واہ بابر اعظم! کیا انداز ہے جشن منانے کا
’اگر میں رنز بنا رہا ہوں تو دوسرے بلے باز بھی بنائیں گے اور متاثر ہوں گے لیکن بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے لہذا میں اپنی فنشنگ کو بہتر بنانا چاہتا ہوں اور بطور کپتان یہ اہم ہے۔‘
بابر اعظم نے بین الاقوامی ایک روزہ کرکٹ میں اپنے کیریئر کا آغاز 2015 میں لاہور میں زمبابوے کے خلاف میچ کھیل کر کیا۔ اسی میچ سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی ایک بار پھر واپسی ہوئی جو 2009 میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گرد حملوں کے بعد معطل ہوگئی تھی۔
بابر اعظم کو پرجوش پاکستانی شائقین کے سامنے کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اپنے ہوم گراؤنڈز اور اپنے مداحوں کے سامنے کھیلنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اس سے مجھے زیادہ توانائی ملتی ہے اور میری خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ جیتے۔‘