بچوں کے حقوق اور فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دا چلڈرن‘ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی محاصرے سے متاثرہ 55 فیصد بچوں نے کبھی نہ کبھی خود کشی کے بارے سوچا ہے۔
’ سیو دا چلڈرن‘ نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کے 15 سال مکمل ہونے پر ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے جس کا محور اس صورت حال سے متاثرہ بچوں کی ذہنی صحت ہے۔
رپورٹ میں تنظیم نے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت فلسطینی ’سینٹر آف بیورو آف سٹیٹسٹکس‘ کے حوالہ جات بھی دیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 80 فیصد بچوں نے اپنے اندر ذہنی دباؤ محسوس کیا ہے۔ 2015 میں یہ تناسب 55 فیصد تھا۔
رپورٹ میں کے مطابق یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ میں موجودہ حالات بچوں کی ذہنی نشونما اور بہتر مستقبل کی امیدوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
سیو دا چلڈرن کی اس رپورٹ کا عنوان انگریزی لفظ ’ٹریپڈ‘ رکھا گیا ہے جس کے معنی ’محصور‘ ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل دیگر اعداد و شمار کے مطابق 84 فیصد بچے خوف محسوس کرتے ہیں۔ 2018 میں یہ تناسب 50 فیصد تھا۔
گھبراہٹ محسوس کرنے والے بچوں کا تناسب 80 فیصد ہے جو 2018 میں 55 فیصد تھا۔
اداس رہنے والے بچوں کا تناسب 77 فیصد ہے جو 2018 میں 62 فیصد تھا۔
اپنی زندگیوں میں کسی نہ کسی غم کا سامنا کرنے والے بچوں کا تناسب 78 فیصد ہے جو 2018 میں 55 فیصد تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غزہ کے آدھے سے زیادہ بچوں یعنی تقریباً 55 فیصد نے خودکشی کرنے کے بارے میں سوچا ہے اور ہر پانچ میں سے تین بچے یعنی 69 فیصد خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
سیو دا چلڈرن کا کہنا ہے کہ ’اب مزید اہم ہو گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرے۔ مقامی حکام، بین الاقوامی برادری اور عطیہ کرنے والے متاثرہ بچوں کی حفاظت اور ذہنی صحت کی بحالی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو مزید تقویت دیں۔‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کی کُل 47 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے جو تقریباً 20 لاکھ بنتی ہے۔ ان میں سے آٹھ لاکھ بچے ایسے ہیں جنہوں نے محاصرے کے بغیر زندگی کا مشاہدہ ہی نہیں کیا۔
اس رپورٹ میں بچوں کی ذہنی صحت میں گراوٹ کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’جسمانی نقصان، معاشی بدحالی، ضروری خدمات جیسا کہ صحت تک عدم رسائی نے محاصرے کے ساتھ شامل ہو کر بچوں اور نوجوانوں میں ذہنی صحت کا بحران پیدا کر دیا ہے۔‘
امر کی عمر 14 سال ہے اور انہیں اب بھی یاد ہے کہ گذشتہ سال جب جنگی صورت حال بنی تو انہیں کیسا محسوس ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’رات میں سو نہیں پاتا تھا کیوں کہ ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ مجھے بہت خوف تھا کہ وہ ہمارے گھر یا محلے پر بمباری کریں گے۔ میں بے حال تھا۔ میں اپنے والد کو بتاتا تھا کہ مجھے ڈراؤنے خواب آتے ہیں تو وہ مجھے یقین دلاتے تھے کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔ پھر میں دوبارہ سونے کی کوشش کرتا تھا۔‘
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے سیو دا چلڈرن نے 488 بچوں، 168 والدین اور بچوں کی نگہداشت کرنے والے افراد سے بات کی ہے۔
یہ تحقیقی رپورٹ 2018 میں اسی طرز پر بنائی جانے والی پہلی رپورٹ کے سلسلے کی کڑی ہے۔
بچوں کی نگہداشت کرنے والے افراد نے بھی بچوں میں تشویش ناک رویوں کے پائے جانے کی تصدیق کی ہے۔
79 فیصد والدین کا کہنا ہے کہ اب بچے پہلے سے زیادہ بستر گیلا کرتے ہیں۔ 78 فیصد کا کہنا ہے کہ ان کے بچے دیا گیا کام مکمل نہیں کر پاتے۔
59 فیصد نے کہا ہے کہ بچوں کو بولنے میں دشواری سمیت زبان، گفتگو اور عارضی گونگے پن کا سامنا ہے جو ٹراما (گہرے صدمے) اور بدسلوکی کی علامات ہیں۔
سیو دا چلڈرن کے مطابق ان تمام رویوں کے فوری اور دیرپا اثرات ہیں جس کا اثر بچوں کی سیکھنے اور سماجی روابط کی صلاحیتوں پر پڑتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کی نگہداشت کرنے والے خود بھی شدید جذباتی تناؤ کا شکار ہیں اور 96 فیصد نے ناخوش اور فکرمند رہنے کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سیو دا چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر جیسن لی کا کہنا ہے کہ ’اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ہم نے جن بچوں سے بات کی وہ متواتر خوف، فکر، اداسی اور غم میں مبتلا ہیں۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ اگلا تشدد کب سامنے آئے گا۔ وہ سونے اور توجہ مرکوز رکھنے سے عاری ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بستر گیلا کرنا، بولنے کی صلاحیت کھو دینا اور بنیادی کام بھی نہ کر پانا ذہنی تناؤ کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ سب بین الاقوامی برادری کو جگانے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔‘