خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ہنگو کے ایک نوجوان نے اپنے والد پر شادی میں تاخیر کا الزام لگاتے ہوئے پولیس کو درخواست دے دی، مگر جب والد سے پولیس نے رجوع کیا تو الگ کہانی سامنے آگئی۔
تقریبا دس روز قبل ہنگو پولیس کو 28 سالہ نوجوان کی درخواست موصول ہوئی، جس میں لڑکے نے قانون کے محافظوں سے ان کے والد کو سمجھانے کی استدعا کی، تاکہ وہ جلد از جلد رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکیں۔
لڑکے نے درخواست میں لکھا کہ ان کے والد سخت دل ہیں، اور بیٹے کی شادی کی انہیں ’بالکل بھی فکر نہیں ہے۔‘
نوجوان نے درخواست میں مزید لکھا: ’میں نے متعدد بار گھر میں اپنی شادی کا مسئلہ اٹھایا ہے لیکن والد ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ موجود ہ بے حیائی کے دور میں گناہ سے بچتا رہا ہوں لیکن کب تک بچتا رہوں گا؟‘
جلد بیاہ رچانے کے خواہش مند نوجوان نے پولیس سے درخواست کی کہ ان کے والد کو بلا کر بیٹے کی شادی جلد از جلد کروانے سے متعلق سمجھایا جائے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے نوجوان نے بتایا کہ وہ سرکاری ٹویب ویل آپریٹر ہیں اور تقریبا 32 ہزار روپے تنخواہ لیتے ہیں، لیکن ان کے والد نے ان کی شادی کے حوالے سے کبھی نہیں سوچا۔
انہوں نے مزید بتایا: ’میں خود بھی شادی کر سکتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ گھر والوں کی مرضی سے ہو، میری والدہ بھی اس سلسلے میں اپنے شوہر کے سامنے بے بس ہیں۔ ‘
والد کا موقف
ہنگو پولیس نے نوجوان کی درخواست موصول ہونے پر صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے باپ بیٹے کو تھانے بلایا تو بالکل مختلف حقائق سامنے آئے۔
ضلع ہنگو سٹی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ( ڈی ایس پی) آصف شارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نوجوان کے والد نے بیٹے کی شادی میں تاخیر کرنے کی الگ کہانی سنائی۔
پولیس آفیسر کے مطابق نوجوان کے والد نے پولیس کو بیان میں بتایا کہ درخواست گزار ان کے تین بیٹوں میں سب سے چھوٹا ہے، لیکن ’بری عادات کا مالک ہے۔‘
والد کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ نوجوان کے دونوں بڑے بھائی شادی شدہ ہیں، بیرون ملک نوکریاں کرتے ہیں، اور گھر والوں کو باقاعدگی سے خرچہ بھیجتے ہیں۔
نوجوان کے والد نے پولیس کو کہا کہ ان کے بیٹے (درخواست گزار) کو ہر مہینے اپنی تنخواہ میں سے گھر پر پانچ ہزار روپے خرچہ دینے اور اپنی عادات درست کرنے کی تلقین کی جائے۔
آصف شارق نے درخواست گزار نوجوان کے والد کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا: ‘اگر میرا بیٹا ایسا کر لیتا ہے تو شادی کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں اس کی شادی کروا لوں گا۔’
باپ سے ’بھتہ وصولی‘
نوجوان کے والد نے پولیس کو بتایا کہ جب کچھ عرصہ قبل وہ خود قطرمیں نوکری کرتے تھے تو درخواست گزار یہاں کام کرنے کی بجائے ’بری عادتوں‘ میں پڑے رہتے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزار نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے اغوا کا ڈرامہ رچایا اور ان (والد) سے بھتے یا تاوان کی رقم بھی وصول کی۔
‘میرا بیٹا کئی مرتبہ ضلع خیبر اور ضلع اورکزئی گیا، اور وہاں سے مجھے دوستوں کے ذریعے جعلی فون کالز کروائیں کہ بچہ اغوا کر لیا گیا ہے، اور پیسے بھیجیں ورنہ اسے زبح کر دیا جائے گا۔’
درخواست گزار نوجوان کے والد نے پولیس کو مزید بتایا کہ بیٹے کی موت کے ڈر سے وہ پانچ چھ لاکھ روپے ’جعلی اغوا کاروں‘ کو ادا کر چکے ہیں۔
تاہم بعد میں اپنے کچھ دوستوں کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا انہی سے پیسے اینٹھنے کی خاطر اغوا کے ڈرامے رچاتا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تبلیغ کے بہانے غائب
شادی کرنے کے خواہش مند نوجوان کے والد نے پولیس کو اپنے فرزند سے متعلق بتاتے ہوئے مزید کہا: ‘ایک مرتبہ یہ تبلیغ کا کہہ کر گھر سے نکلا لیکن کچھ دن بعد انہیں معلوم ہوا کہ برخوردار کا بوریا بستر تبلیغی مرکز میں پڑا ہے، جبکہ وہ خود غائب ہیں۔ ‘
لاچار باپ نے پولیس کو مزید بتایا کہ ڈیڑھ سال تک غائب رہنے کے بعد ان کے بیٹے ’فوج کے زیر اہتمام قائم مرکز میں نمودار ہوئے، جہاں انہیں شدت پسندی کے الزامات میں گرفتاری کے بعد معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی غرض سے تربیت دی جا رہی تھی۔‘
ڈی ایس پی آصف شارق نے کہا کہ انہوں نے درخواست گزار نوجوان کو سمجھایا کہ بری عادات سے گریز کرتے ہوئے والدین کی خدمت کریں۔
پولیس نے باپ بیٹے ایک مہینے کا وقت دیا تاکہ کہ دونوں فریق اپنے معاملات بہتر بنائیں اور اچھے طریقے سے زندگی گزاریں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ماضی میں بھی ایسی درخواستیں موصول ہوئیں؟ تو ڈی ایس پی نے بتایا کہ باپ بیٹوں کے مابین تلخیوں کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور پولیس ان پیچیدگیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہے۔
انڈپیڈنٹ اردو کی کوششوں کے باوجود درخواست گزار کے والد سے براہ راست رابطہ نہیں ہو سکا۔