سعودی شہزادے سلطان بن سلمان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کے ملک کے خلا باز بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے خلا میں واپس جائیں گے۔
یہ بات شہزادہ سلطان بن سلمان نے خلا میں اپنی تاریخی پرواز کی 37 ویں سالگرہ کے موقعے پر العربیہ انگلش کو دیے گئے طویل انٹرویو میں کہی۔
سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے بیٹے شاہ سلطان نے 17 جون 1985 کو تاریخ رقم کی تھی، جب وہ ڈسکوری خلائی شٹل پر سوار ہونے اور زمین کا مدار چھوڑنے والے پہلے عرب، پہلے مسلمان اور شاہی خاندان کے پہلے رکن بنے تھے۔
انھوں نے پرواز میں پانچ امریکیوں اور ایک فرانسیسی پر مشتمل عملے کے ساتھ مل کر تین سیارچے مدار میں پہنچائے تھے۔ ان میں عرب سیٹ ون بی 1 بھی شامل تھا جس کے لیے وہ پے لوڈ کے ماہر تھے۔
العربیہ انگلش کو دیے گئے انٹرویو میں شہزادہ سلطان نے سعودی خلائی پرواز کے مستقبل، اپنے خلائی سفر اور اس سفر کے دوران رکھے گئے روزوں کی روداد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عرب خلا بازوں کی نئی نسل کو بھی سراہا۔
انہوں نے کہا: ’یقیناً سعودی عرب خلا میں واپس جا رہا ہے۔ ہمیں خلا میں واپس جانا ہے لیکن ہمیں نہ صرف چیزوں کو واپس لانے بلکہ ترقی کے عمل اور ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کے نقطہ نظر کے ساتھ خلا میں واپس جانا ہوگا۔‘
شہزادہ سلطان کو 2018 میں نو تشکیل شدہ سعودی خلائی کمیشن کا قائد مقرر کیا گیا تھا، جسکا مقصد مملکت کے خلائی مشن کو تیز کرنا تھا۔
اس وقت انہوں نے شاہ سلمان سے کہا تھا کہ انہیں تنظیم کے قیام اور سعودی خلائی سفر کے لیے ایک منصوبہ تیار کرنے کے لیے تین سال درکار ہوں گے۔
2021 میں تین سالہ مدت کے اختتام پر انہیں بادشاہ کا خصوصی مشیر مقرر کردیا گیا اور انہوں نے کمیشن کے ساتھ کام کرنا بند کر دیا۔
خوبصورت یادیں
شہزادہ سلطان کے خلائی مشن کی سالگرہ کا ایک اہم لمحہ اماراتی خلاباز ہزاع المنصوری کی ایک ٹویٹ تھی، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’انہیں اس کامیابی کی شدت سے یاد دلائی گئی ہے‘ اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ مستقبل کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے اس وراثت کو آگے بڑھانے کے پابند ہیں۔
اپنے انٹرویو میں شہزادہ سلطان نے کہا کہ ’یہ ایک خوبصورت ٹویٹ تھی۔‘ وہ 38 سالہ اماراتی خلاباز کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں۔ ہزاع 25 ستمبر 2019 کو خلا میں جانے والے پہلے اماراتی بنے تھے۔
شہزادہ سلطان نے بتایا کہ ’میں نے انہیں پہلی بار تب فون کیا تھا، جب وہ تربیت حاصل کر رہے تھے۔‘
’انھوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ چوتھی جماعت میں تھے تو وہ ہمارے مشن کو دیکھ رہے تھے اور وہ اسی وقت متاثر ہو گئے تھے۔‘
خلا میں روزے
ناسا کا ایس ٹی ایس-51- جی ڈسکوری شٹل مشن 17 جون 1985 کو مقامی وقت کے مطابق صبح سات بج کر 33 منٹ پر فلوریڈا کے کینیڈی خلائی مرکز سے روانہ ہوا تھا۔
لانچ کی تاریخ کے دن رمضان کی 29 ویں تاریخ تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ شہزادہ سلطان نے پرواز سے پہلے اور مشن کے دوران سخت تربیت کے باوجود روزہ رکھا ہوا تھا۔
انہوں نے اپنے روزے کو قضا کرنے کی بجائے مشن کے دوران ہی رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس سے ایک سال پہلے بھی شہزادہ سلطان نے اپنے روزوں کی قضا کی تھی، جب وہ لاس اینجلس میں 1984 کے اولمپکس کی تیاریوں میں مدد کر رہے تھے۔
انہیں سعودی عرب میں اکیلے قضا روزے رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لہٰذا انہوں نے اس مرتبہ صفر کشش ثقل میں روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سعودی عرب کی سب سے سینیئر مذہبی اتھارٹی کے ساتھ مشہور مکالمے میں شہزادہ سلطان نے اپنے روزوں کے بارے میں دلچسپ واقعہ بتایا۔
’میں نے سعودی عرب میں مفتی شیخ بن باز سے بات کی اور مذاق میں کہا کہ ہم روزانہ 16 غروب آفتاب اور طلوع آفتاب دیکھنے جا رہے ہیں۔ کیا میں دو دن میں رمضان ختم کر سکتا ہوں؟‘
اس پر شیخ بن باز نے کہا: ’نہیں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ جب میں سعودی عرب واپس آیا تو میں نے ان کے ساتھ اچھا سیشن کیا اور ہم ہنس پڑے اور بات چیت کی۔‘
خلائی مشن سے کچھ دیر پہلے انہیں پیغام دیا گیا کہ ان کی والدہ مکہ میں طواف کر رہی ہیں۔
بقول شہزادہ سلطان: ’میرے ذہن میں خیال آیا کہ جب میری والدہ خانہ کعبہ کے گرد چکر لگا رہی ہیں تو میں جلد ہی سیارے کے گرد چکر لگا رہا ہوں گا۔‘
پروازمیں ان کی ذاتی ملکیت میں قرآن کا نسخہ اور تسبیح تھی۔ مشن کے پانچویں دن تک شہزادہ سلطان خلا میں قرآن کی تلاوت مکمل کرچکے تھے۔
شہزادہ سلطان نے خلا میں پہلے دو دن تک روزہ رکھا اور پھر رمضان کا اختتام ہوگیا اور یکم شوال کو عیدالفطر تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں شدید سر درد کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کم کشش ثقل کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں درد تھا لیکن اس تکلیف کے باوجود انہوں نے سفارش کردہ درد کش ادویہ یا نشہ آور ادویہ نہ لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ خلائی سفر کے مکمل تجربے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، مثبت اور منفی دونوں۔
جب مشن کے دوران سورج دن میں 16 بار طلوع اور غروب ہوتا تھا تو عملے کو روزانہ آٹھ گھنٹے کی نیند کے بعد موسیقی بیدار کرتی تھی اور ہر خلاباز (یا ان کے اہل خانہ) نے مختلف صبحوں کے لیے ایک مختلف گانا منتخب کیا تھا۔
شہزادہ سلطان کا انتخاب سعودی گلوکار محمد عبدو کی بعدوالاقربین (قریب یا دور) تھا۔
پرواز کے چھٹے دن شہزادہ سلطان کو شاہ فہد کا فون آیا۔ یہ ایک اور پہلا موقع تھا کیونکہ وہ اس وقت واحد غیر امریکی تھے جنہوں نے خلا سے کسی سربراہ مملکت سے بات کی تھی۔
انہوں نے اپنے والد شاہ سلمان سے بھی بات کی تھی۔ وہ اس وقت صوبہ الریاض کے گورنر تھے۔
یہ کال امریکی سیٹلائٹ ٹرانسمیشن کی مدد سے جدہ ٹی وی پر مملکت بھر میں نشر کی گئی تھی۔
عرب سیٹ 1 ٹیک آف کے 27 گھنٹے بعد دوسرے دن کامیابی کے ساتھ مدار میں پہنچ گیا تھا اور عملہ فلوریڈا کے وقت کے مطابق 24 جون کو صبح نو بج کر 11 منٹ پر زمین پر واپس آیا تھا۔
ہیوسٹن میں زمین کے حالات کے مطابق دوبارہ ڈھلنے کے دو ہفتوں سے بھی کم عرصے کے بعد شہزادہ سلطان سعودی عرب واپس روانہ ہو گئے تھے۔
طائف جانے والی پرواز میں انھیں یاد ہے کہ وہ بوئنگ 707 کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے کہ شاہی سعودی فضائیہ کے دو لڑاکا طیاروں نے ان کے طیارے کو اپنی حفاظتی حصار میں لے لیا تھا۔
انہوں نے یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا: ’یہ میری زندگی کے نمایاں لمحات میں سے ایک تھا۔‘
ایک اور پہلا اعزاز
انہیں یاد ہے کہ طیارے کے اترنے سے پہلے شاہ فہد بن عبدالعزیز کی طرف سے انہیں فون کال موصول ہوئی تھی۔
بادشاہ چاہتے تھے کہ ٹیم جہاز سے باہر نکلتے وقت اپنے خلائی سوٹ پہنے، تاہم شہزادہ سلطان کو ایک اور خیال آیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہمیں سعودی عرب کا قومی لباس پہننے دیں۔
’شاہ فہد کو قائل کرنے کی کوشش کرنا میری کتنی احمقانہ حرکت تھی۔ تب ہم نے نیلا سوٹ پہن رکھا تھا اور وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔‘
جب ہم طائف پہنچے تو میں نے طیارے کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور میں نے شاہ فہد کو استقبالیہ میں آتے دیکھا۔
’میں نے کہا اگر آپ میری زندگی میں ہونے والی ہر چیز کو چھین لیں اور مجھے وہ لمحہ دیں تو یہ میرے لیے ٹھیک ہوگا۔ وہ لمحہ شاہ فہد کو ٹیم کا استقبال کرتے دیکھنا تھا۔‘
شہزادہ سلطان نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ افراد طائف کی گلیوں میں نکلے ہوئے تھے اور یہ تقریبات عسیر، ریاض اور مملکت بھر میں جاری رہیں۔
انہوں نے کہا: ’ایک موقعے پر میں اس مقام پر آگیا جہاں میں نے سوچا کہ اگر مجھے اس پر یقین ہے تو میں پوری دنیا کے سب سے متکبر شخص کی طرح گھوموں گا کیونکہ میں خود کوایک جینئس کے طور پر سوچوں گا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ لوگ ہمارا جشن نہیں منا رہے تھے، بلکہ وہ خود کو منا رہے تھے۔‘
نوٹ: یہ رپورٹ اس سے پہلے العربیہ اردو پر شائع ہو چکی ہے۔