افغان طالبان کے مرکزی ترجمان اور ان کی حکومت کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان بات چیت میں وہ مداخلت کے حامی نہیں ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان جنگ بندی طویل عرصے پر محیط ہوگی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے مینجنگ ایڈیٹر ہارون رشید کے چند ہفتے قبل بھیجے گئے تحریری سوالات کا جواب دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان نے یہ بات کی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کیا شرائط ہیں اور پاکستان کو ان میں سے کتنی قبول ہیں تو انہوں نے کہا کہ فریقین کے درمیان بات چیت سے افغان طالبان کا تعلق نہیں۔ ’ہم نہیں چاہتے کہ ان موضوعات میں مداخلت کریں کیونکہ یہ ان کے آپس کا مسئلہ ہے۔ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے جو حل ہونا چاہیے۔
’ہم مصالحت اور امن کے طرف دار ہیں۔ مصالحت ہونی چاہیے۔ داخلی امور میں ان کے ایک دوسرے سے مطالبات بھی ہوں گے۔ ان کے درمیان دوریاں بھی ہوں گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ فریقین ایک دوسرے کو نرمی دکھائیں۔‘
افغانستان میں طالبان حکومت کی کوششوں سے پاکستانی طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کا آخری دور، جو تقریباً تین ہفتے قبل کابل میں شروع ہوا تھا، فریقین کے درمیان غیرمعینہ مدت کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے امید ظاہر کی کہ جنگ بندی زیادہ سے زیادہ طویل ہو اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ رکا رہے۔ انہوں نے تاہم واضح کیا کہ جنگ بندی کے خاتمے کی صورت میں وہ افغان سرزمین کسی پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی اور کوئی باضابطہ اعلان ہونے سے متعلق سوال پر ذبیح اللہ مجاہد نے مثبت میں جواب دیا کہ پاکستانی طالبان کی جانب سے غیرمعینہ مدت تک طویل جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے اور ایک اعلامیے میں بھی سامنے آچکا ہے۔ ’ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔‘
پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان عیدالفطر کے موقع پر فائربندی معاہدہ طے پایا تھا جس کی مدت 30 مئی تک طے کی گئی تھی لیکن بعد میں جرگے کے کابل دورے کے تناظر میں اسے مزید بڑھا دیا گیا تھا۔
کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی خطے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ متعدد مواقع پر پاکستان اور افغان سرحدی محافظوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
افغان پاکستانی سکیورٹی فورسز پر سرحد پار حملوں کا الزام بھی عائد کرتے ہیں جس پر اسلام آباد نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ تاہم ان حملوں کے بعد بظاہر افغان طالبان نے پاکستان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو دوبارہ سنجیدگی سے لیا اور جنگ بندی ممکن ہوئی۔
لشکر طیبہ/جیش محمد
امارت اسلامی کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی کی مانیٹرنگ ٹیم نے ایک حالیہ رپورٹ میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کا افغانستان میں موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے اور ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا، اس پر ان کا کیا موقف ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ افغانستان میں بیرونی شہریوں کی موجودگی کی میں تائید نہیں کرتا۔ ’ہم نے بارہا کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین ہم کسی کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے چاہے وہ ہمسایہ ملک ہو، قریبی ملک ہو یا دور کا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’کیونکہ ہم افغانستان کو مزید جنگ کا محور نہیں رکھنا چاہتے۔ یہاں امن وامان ہونا چاہیے۔ اس کے لیے سکون اور بہتر پرامن پالیسی ضروری ہے۔ میں اس بات کی تصدیق نہیں کرتا کہ یہاں کوئی بیرونی شہری موجود ہے۔‘
افغان حکومت کا مستقبل
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس اپنی حکومت تسلیم کروانے کے لیے کیا لائحہ عمل ہے اور تسلیم کیے جانے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں مستقبل کی حکمت عملی کیا ہوگی، تو انہوں نے کہا ان کی حکومت کی جانب سے کوشش جاری ہے کہ اسے تسلیم کروا لیا جائے۔ ’یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ اس میں تمام ممالک کا بھی فائدہ ہے۔‘
ان کے بقول افغانستان کا بھی فائدہ ہے۔ تسلیم کیے جانے کے بعد ایک ذمہ دارانہ رویہ سامنے آتا ہے۔ ’جو گلے شکوے عالمی دنیا کو ہم سے ہیں وہ سرکاری سطح پر ایک دوسرے کے سامنے پیش کیے جاسکتے ہیں اور انہیں اہمیت ملتی ہے، اس پر ذمہ دارانہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔
’اب کسی فریق کو تسلیم بھی نہیں کیا جاتا اور اس سے مطالبات بھی کیے جاتے ہیں۔ یہ بجائے خود سوال انگیز ہے اور اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں تسلیم کر لیا جاتا ہے تو یہ عالمی دنیا کے بھی مفاد میں ہے اور ہمارے بھی۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سے خطے میں امن اور استحکام آئے گا۔ ان کی طرف سے اس حوالے سے تمام لازمی شرائط پوری ہیں البتہ کچھ ممالک کی جانب سے مسائل ہیں۔ ’خصوصاً امریکہ نے اب تک سفارتی تعلقات کے حوالے سے موثر اقدامات نہیں کیے ہیں جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔‘
معاشی مسائل
افغانستان کی معاشی صورت حال سے متعلق سوال پر ذبیح اللہ مجاہد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کہ ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔ ’لیکن ہر ملک جو جنگ زدہ ہو وہاں اقتصادی پیش رفت میں وقت لگتا ہے کیونکہ افغانستان میں کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں تھا۔ کوئی کارخانہ یا ایسا کوئی اقدام جو بڑی سطح پر افغانستان کے لیے مفید اور دائمی ہو ایسا کچھ موجود نہیں تھا۔ ہماری کوشش ہے انفراسٹرکچر بحال کریں۔ کارخانے فعال کردیں۔ صنعت کے شعبے میں کام کریں۔ تجارت اور نقل وحمل کے لیے سہولیات سامنے لائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے اور ہماری مزید کوشش جاری ہے کہ اس حوالے سے موثر اقدامات کیے جائیں۔ ’ہمیں امید ہے اس حوالے سے اچھے نتائج حاصل کرلیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بینکنگ نظام کی وجہ سے خام مال کی درآمد میں مسائل ہیں۔ تاجر اور کارخانے والے خام مال خرید اور درآمد نہیں کر پا رہے۔ یہ مسئلہ آہستہ آہستہ حل ہوگا۔ ہم نے بہت پہلے سے کوششیں شروع کی ہیں۔
’معدنیات میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ ہرات میں غوریان لوہے کی ایک کان ہے اب بھی کئی ممالک کے درمیان نیلامی کے لیے اسے پیش کردیا گیا ہے۔ ریلوے لائن، ٹاپی پروجیکٹ، شاہراہ ریشم پروجیکٹ، ازبکستان اور طورخم کے درمیان ریلوے لائن سب پر ابتدائی کام جاری ہے۔ اس کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے ان منصوبوں کا جلد آغاز ہو اور ملکی معیشت اس سے آگے بڑھے۔‘
میڈیا سے دور امیر
طالبان کی جانب سے کابل کی فتح کو 10 ماہ ہوچکے ہیں، مگر آج بھی یہ سوال موجود ہے کہ ان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کہاں ہیں اور کیوں مسلسل عوام کے سامنے آنے سے اجتناب کر رہے ہیں؟ اس بارے میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے امیر مناسب وقت پر منظر عام پر آجائیں گے۔ ’اب بھی وہ ملاقتیں کر رہے ہیں صرف میڈیا پر نہیں آئے۔ وہ جلسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ لوگوں سے بھی ملتے ہیں۔ کئی صوبوں کے دورے کیے ہیں البتہ میڈیا پر نہیں آئے یہ بھی مناسب وقت پر ہو جائے گا۔‘