اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریاستی ادارے کے خلاف حقوق انسانی کی کارکن اور سابق وفاقی وزیر کی صاحبزادی ایمان مزاری کے متنازع بیان پر مقدمہ ختم کر کے ضمانت کی درخواست غیرموثر قرار دے دی ہے۔
اپنے فیصلے میں حیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری اپنے کہے پر ندامت کا اظہار پہلے ہی کر چکیں ہیں۔ ’ایمان مزاری آفیسر آف کورٹ ہیں ان کو ایسے الفاظ نہیں بولنے چاہییں۔ اب مزید کیا چاہتے ہیں؟‘
ایمان کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے تو پہلے دن کہہ دیا تھا کہ جو لفظ بولا گیا اس کا کوئی جواز نہیں۔ ’عدالتی ہدایت پر ہم تحفظات کے باوجود تفتیش کا حصہ بنے۔‘
اس موقع پر وزارت دفاع کے وکیل نے مطالبہ کیا کہ ایمان مزاری باقاعدہ پریس میں اپنے بیان پر معافی مانگیں تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس عدالت کے سامنے اپنے بیان پر معذرت کا اظہار کر چکیں ہیں۔
چیف جسٹس نے ایمان مزاری کے دفاع میں بظاہر کہا کہ ان کے بیان کا وقت بھی دیکھنا چاہیے کیونکہ ان کی والدہ کے ساتھ اس وقت کیا ہوا تھا۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ایمان مزاری ان کی بچی کی طرح ہیں لیکن ان کا پرانا کنڈکٹ بھی دیکھا جانا چاہیے۔
اس سے قبل ایمان مزاری نے والدہ شیریں مزاری کی گرفتاری کے بعد پاکستان فوج کے خلاف دیے گئے بیان پر درج ایف آئی آر سے متعلق اپنی وضاحت دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
جمع کروائے گئے جواب میں کیا لکھا تھا؟
ایمان مزاری نے اداروں کے خلاف نامناسب زبان کے استعمال کرنے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں اپنا تین صفحات پر مشتمل تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا تھا۔
انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں عائد کیے گئے الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں اور یہ مقدمہ بے بنیاد اور قانونی کارروائی کا غلط استعمال ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایمان مزاری نے بتایا ہے کہ وہ تفتیشی افسر کے سمن کرنے پر 30 مئی کو شامل تفتیش ہوئیں جہاں انہیں دو ویڈیوز دکھائی گئیں جن میں سے ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر اور ایک اندر کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 21 مئی 2022 کو ان کی والدہ شیریں مزاری کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ ’انہوں نے گرفتاری سے قبل بتایا تھا کہ آرمی چیف اور ان کے درمیان دو مرتبہ کے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، موضوع کیا تھا اس کا علم نہیں، والدہ نے بتایا تھا کہ آرمی چیف کے ساتھ تلخ جملوں کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی والدہ کی گرفتاری کے روز انہوں نے جس شک کا اظہار کیا اسے کسی جرم میں معاونت کی کوشش نہیں کہا جا سکتا، پاکستان آرمی کے سپاہیوں کو سینیئر لیڈرشپ کے خلاف بغاوت پر اکسایا نہ ہی کوئی معاونت کی۔ یہ الزام مضحکہ خیز ہے کہ اپنی ماں کی گمشدگی کے وقت میرا ارادہ بغاوت کروانا ہے۔
انہوں نے جواب میں لکھا ہے کہ معلومات کی بنیاد پر شک کا اظہار کرنا ان کا حق تھا۔ ان کا ارادہ اس گرفتاری کے پیچھے شخص کی تحقیقات کروانے کا تھا۔
انہوں نے جمع کرائے گئے جواب میں بتایا کہ دوران تفتیش شدت پسندوں سے رابطے سے متعلق بھی ان سے پوچھا گیا جس کی انہوں نے سختی سے تردید کی۔ ایمان مزاری نے کہا ہے کہ وہ ایک پرامن غیر مسلح شہری ہیں اور انہوں نے کسی بھی شکایت کے ازالے کے لیے ہمیشہ قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ’غیر ملکی رابطوں سے متعلق سوال پر فارن ایجنٹ‘ ہونے کی تردید کرتے ہوئے جنوری 2021 میں آخری مرتبہ بیرون ملک سفر کرنے کا بتایا ہے۔
ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟
ایمان مزاری کے خلاف جج ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے درخواست پر دفعات 138 اور 505 کے تحت اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں مقدمہ درج کیا گیا جس کے متن کے مطابق ’ایمان مزاری نے 21 مئی 2022 کی شام پانچ سے چھ بجے پاکستان فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف سرعام من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے آرمی قیادت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔ ان کے ریمارکس کا مقصد فوج کے رینکس اینڈ فائل میں اشتعال دلانا تھا جو فوج کے اندر نفرت پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق یہ بیان دینا پاکستان فوج کے افسروں، جوانوں کو حکم عدولی پر اکسانے کے مترادف ہے اور فوج اور سربراہ کی کردار کشی سے عوام میں خوف پیدا کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے۔ اس لیے متعلقہ قوانین کے تحت ایمان مزاری کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘