برطانیہ کے سب سے معتبر تحقیقاتی ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ کی ساکھ پر اس وقت سوالیہ نشان لگ گیا جب ایک آزادانہ مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ ادارے کی جانب سے چہرے کی شناخت کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے پکڑے گئے ہر پانچ ملزموں سے چار بے گناہ اور معصوم تھے۔
یونیورسٹی آف ایسسیکس کی تحقیق کے مطابق میٹروپولیٹن پولیس کی جانب سے استعال کی جانے والی ٹیکنالوجی لائیو فیشل ریکوگنائزیشن (ایل ایف آر) سسٹم بیشتر مقدمات میں غلط ثابت ہوا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے جانے والے چھ مقدمات میں تشخیصی عمل کے دوران 42 میں سے محض آٹھ چہروں کی درست شناخت ممکن ہو پائی۔
میٹ کی جانب سے کمیشن کی گئی رپورٹ میں اس حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس متنازع ٹیکنالوجی کا استعمال انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ چہرے کی شناخت کے اس عمل کو اگر عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس کو غیرقانونی قرار دے دیا جائے گا۔
رپورٹ کے مصنفین پروفیسر پیٹر فسی اور ڈاکٹر ڈیرا مری نے سکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر اس وقت تک پابندی عائد کرنے کی سفارش کی ہے جب تک اس حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات کو دور نہ کیا جائے۔
دوسری جانب میٹ کے ڈپٹی اسسٹنٹ کمیشنر ڈنکین بیل کا اصرار ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے تجرباتی عمل کے نتائج انتہائی درست ثابت ہوئے تھے۔
بیل نے اس رپورٹ میں ایل ایف آر کے حوالے سے منفی اور غیر متوازن رائے کو نہایت مایوس کن قرار دیا ہے۔
نیوفیس سسٹم میں خصوصی کیمروں کی مدد سے ہجوم میں لوگوں کے چہرے کی بناوٹ کوسکین کرکے اس کو ڈیجیٹل تصاویر میں ڈھالا جاتا ہے اور اس کا تقابل گرفتار مشتبہ افراد یا واچ لسٹ میں شامل افراد کے چہروں سے کیا جاتا ہے تاکہ اصل مجرم تک پہنچا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ واچ لسٹ میں موجود افراد کے چہروں کی شناخت کی صورت میں موقعے پر موجود پولیس اہلکاروں کو بروقت آگاہ کر دیا جاتا ہے۔
میٹ کی ویب سائٹ کے مطابق سکاٹ لینڈ یارڈ اس ٹیکنالوجی کا استعمال 2016 سے کر رہی ہے۔
چہرے کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو پہلی بار ویلز کی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے جہاں عدالت اس کا قانونی جائزہ لے رہی ہے۔
شہری حقوق کی تنظیم لبرٹی، ساؤتھ ویلز پولیس کے خلاف اس مقدمے کی پیروی کر رہی ہے۔
اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد لبرٹی کی رہمنا ہنا کوچمین نے اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
’میٹ کی جانب سے عوامی مقامات پر چہروں کی شناخت کی ٹیکنالوجی کے تجرباتی عمل کے تباہ کن تنائج کے بعد لبرٹی کی جانب سے اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ جائز ہے۔‘
’اگر اس رپورٹ کے بعد بھی میٹروپولیٹن پولیس اس ٹیکنالوجی کا استعمال جاری رکھتی ہے تو یہ شہری حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔ ہم شہریوں کے حقوق کے لیے لڑیں گے۔ اس بے ہودہ ٹیکنالوجی کے لیے ہماری سڑکوں پر کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
تحقیقی رپورٹ میں واچ لسٹ کی فہرست کے حوالے سے بھی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کیونکہ ان میں موجود معلومات پرانی ہو سکتی ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ پولیس نے اکثر ان افراد کو بھی روک لیا جن پر مقدمات ختم پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔
اس عمل میں متعدد آپریشنل ناکامیاں بھی ظاہر ہوئی ہیں جس سے عوامی اعتماد اور ان کے قانونی حقوق کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر مری کا کہنا ہے: ’یہ رپورٹ انسانی حقوق کے قانون کے بارے میں اہم خدشات کا اظہار کرتی ہے۔ اس عمل سے مقدمات کے لئے قانونی بنیاد واضح نہیں ہو سکتی اور یہ انسانی حقوق کے لیے بنائے گئے قوانین سے بھی متصادم ہے۔ یہ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک کامیاب کوشش کو ظاہر نہیں کرتا اور اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ میٹروپولیٹن پولیس کا یہ نظام انسانی حقوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نہیں بنایا گیا اور انسانی حقوق اس عمل کا ایک لازمی حصہ نہیں تھا۔‘
ڈپٹی کمیشنر بیل نے اس نظام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ نئی ٹیکنالوجی ہے اور ہم اس کی پولیس نظام کے تناظر میں جانچ کر رہے ہیں۔
’میٹ نے اس نظام کو تجرباتی مدت کے بعد اپنایا ہے اور ہم نے اس کی مدد سے کئی مطلوب مجرموں کی شناخت میں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔‘
’عوام کی توقع کے مطابق ہم لندن کو مزید محفوظ بنانے کے لئے جرائم کے خلاف جدید طریقوں کا استعمال جاری رکھیں گے۔‘
© The Independent