جنوبی ایشائی ملک سری لنکا کا حالیہ دنوں میں دیوالیہ ہونے کے بعد معمولات زندگی کا متاثر ہونا، احتجاجی مظاہرے اور حکومت کی تبدیلی کے بعد بعض لوگ پاکستان کی معاشی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس کے بھی اسی معاشی بھنور میں پھنسنے کے بارے میں خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی ایک تقریر میں پاکستان کے سری لنکا بننے کے خدشے کا برملا اظہار کیا۔ تو کیا ایسا خطرہ واقعی موجود ہے؟
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معروف ماہر معاشیات سلمان شاہ کا اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رقم ملنے میں تاخیر اچھی نہیں ہوگی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو اگلے ایک سال میں 30 ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاہم وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اس رقم کا بندوبست انشا اللہ ہو جائے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سلمان شاہ نے کہا: ’اگرچہ پاكستان اور سری لنکا كے معاشی حقائق مختلف ہیں، تاہم خطرہ ہمارے بھی بہت قریب ہے، اور آئی ایم ایف سے پیسے جلد نہ ملے تو گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے كہا كہ آئی ایم ایف كے ساتھ معاہدے پر دستخط ہونے تک پاكستانی معیشت كو خطرات لاحق رہیں گے۔
اسلام آباد کے رہائشی 45 سالہ منیب شیخ کا کہنا تھا کہ سری لنکا کے حالات پاکستان سے متعلق ان کی پریشانی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہماری معیشت بھی اتنی اچھی نہیں ہے، ڈر لگتا ہے اگر ہم بھی سری لنکا کے سٹیج پر پہنچ گئے تو کیا بنے گا؟‘
سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے بدھ کو ملکی معیشت کی ’مکمل تباہی‘ كا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قوم کو ماضی قریب میں درپیش گیس، بجلی اور خوراک کی قلت سے کہیں زیادہ سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔
شدید معاشی بحران کے شکار سری لنکا میں اس سال مئی میں حکومت کی تبدیلی بھی معاشی بہتری کا سبب نہ بن سکی، اور آج بھی وہاں لوگوں کو اشیا ضروریہ کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی نوزائیدہ مخلوط حکومت اقتصادی اعشاریوں کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے، اور انہی کوششوں کے نتیجے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
وفاقی وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، جو عوام کی تشویش اور مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔‘
سری لنکا میں کیا ہوا؟
اقتصادی مسائل کے باوجود 2019 سے قبل تک سری لنکا کی معیشت بہتر تھی، اور اس کا انحصار بڑی حد تک سیاحت کی صنعت پر تھا۔ حسین قدرتی مناظر اور گرم موسم کے باعث دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں سیاح سری لنکا کا رخ کرتے تھے۔
تاہم 21 اپریل 2019 کو ایسٹر کے موقعے پر دارالحکومت کولمبو کے چھ چرچوں اور مہنگے ہوٹلوں میں کئی بم دھماکے ہوئے، جو ڈھائی سو سے زیادہ اموات کا باعث بنے۔
ان واقعات نے سری لنکا کی سیاحت کی صنعت کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ غیرملکی خصوصاً امریکی اور یورپی ملکوں سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی۔
سری لنکا کی معیشت پر ابھی بم دھماکوں کے اثرات کم نہیں ہو پائے تھے کہ 2020 کے دوران دنیا بھر میں کووڈ 19 کی وبا پھیلی اور ملکوں اور حتی کہ شہروں کے درمیان بھی سفری پابندیوں کا اطلاق عمل میں آیا۔
وبا کے باعث ساری دنیا میں سیاحوں کی نقل و حرکت میں شدید کمی آئی اور یہ سری لنکا کی معیشت کے لیے دوسرا شدید دھچکا ثابت ہوا۔
سال 2019 کے دوران ہی مہندا راج پکشے نے سری لنکا میں مہنگائی کم کرنے اور لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوؤں کے ساتھ اقتدار سنبھالا۔ حکومت میں آتے ہی انہوں نے ٹیکس کم کیے اور حکومتی محصولات میں کمی اور بڑے بجٹ خسارے کے باعث زیادہ کرنسی نوٹ چھاپے جس سے افراطِ زر میں اضافہ ہوا۔
ایسے میں سری لنکا کے غیرملکی زرمبادلہ کی آمدن میں کمی واقع ہوئی۔ تاہم حکومت نے سری لنکن روپے کی قدر میں کمی نہیں کی۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی نے سری لنکن درآمدات کی ادائیگیوں کی صلاحیت کو ختم کر دیا جبکہ تیل اور گیس کی درآمد میں کمی نے بجلی کی پیداوار کو اس حد تک متاثر کیا کہ اس وقت ملک کو کئی کئی گھنٹے بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔
مہندا راج پکشے کی دوسری غلطی 2021 میں دوسری چیزوں کے ساتھ کیمیائی کھادوں کی درآمدات پر پابندی لگانا تھی، جس سے سری لنکا کی چاول اور چائے کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی، دیہی علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوا اور ملک میں پہلے سے موجود غذائی بحران مزید بڑھ گیا۔
اس وقت سری لنکا میں افراط زر تقریباً 20 فیصد ہے اور وہاں خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیا کی قلت ہے، جبکہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور سری لنکا چین، بھارت، جاپان اور امریکہ سمیت دیگر ممالک سے مالی امداد کا طلب گار ہے۔
پاکستان، سری لنکا معیشتوں کا تقابلی جائزہ
سری لنکا میں معاشی بدحالی نے پاکستان کی ڈانواڈول اقتصادیات سے متعلق بھی کئی سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں۔
دونوں جنوبی ایشیائی ملکوں کی معیشتوں میں موازنے سے پاکستانی معیشت کے مستقبل سے متعلق اندازہ لگانا آسان ہو گا۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’سری لنکا کی معیشت کا انحصار سیاحت کی صنعت پر تھا جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی صنعت کبھی بھی نہیں رہی۔‘
ان کے بقول: ’پاكستان كافی حد تک اپنی غذائی ضروریات اندرون ملک سے ہی پوری کرتا ہے جبکہ سری لنکا کو خوراک بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے جس پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید كہا كہ دونوں معیشتوں میں مشتركہ عناصر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بے ہنگم غیرملکی قرضے شامل ہیں۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ سری لنکا نے غیرملکی قرضے حاصل کیے اور انہیں انفراسٹرکچر کے مشکوک منصوبوں پر خرچ کیا جبکہ پاکستان میں بیرون ملک سے حاصل ہونے والے قرضوں کو بجلی کے ایسے منصوبوں پر لگایا گیا جو ملکی ضرورتوں کے برعکس تھے۔
ان کے بقول: ’پاکستان اور سری لنکا دونوں نے بہت زیادہ بیرونی قرضے حاصل کیے، لیکن ان سے ملکی معیشتوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔‘
ڈاکٹر خاقان نجیب کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کی جنگ نے بھی سری لنکا میں سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا جبکہ پاکستان میں زیادہ بڑا بل گندم اور تیل کی درآمد کا بنتا ہے۔
ڈاكٹر خاقان نجیب نے كہا: ’پاكستانی معیشت كا حجم سری لنكن معیشت كے مقابلے میں بہت بڑا ہے اور اسی وجہ سے كولمبو میں حالات تیزی سے خراب ہوئے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان کے پاس اس وقت 8.9 ارب ڈالر کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں، جبکہ سری لنکا میں یہ حجم کم ہو کر پانچ کروڑ ڈالر تک آ گیا تھا۔‘
ان کے مطابق پاکستان کے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اور چین جیسے دوست ہیں، جو مشکل وقت میں ہمیشہ اسلام آباد کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ’اس کے برعکس سری لنکا کے پاس ایسے دوست نہیں ہیں جو اسے اس مشکل صورت حال میں نکال سکتے۔‘
کیا پاکستان میں سری لنکا جیسی صورت حال بن سکتی ہے؟
ڈاکٹر فرخ سلیم کے خیال میں پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا اب کوئی امکان نہیں رہا اور اس کی بنیادی وجہ موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اسلام آباد نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے دیوالیہ پن سے دس دن قبل آئی ایم ایف کا دروازا کھٹکھٹایا جبکہ سری لنکن دیوالیہ ہونے کے بعد بین الاقوامی ادارے کے پاس گیا۔ اور یہی ایک واحد وجہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔‘
ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ اگرچہ دیوالیہ پن کا خطرہ موجود ہے، تاہم آئی ایم ایف کا پروگرام اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔
’سری لنکا کے لیے سیاحت اور پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے۔‘
وفاقی وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’پاکستان کے معاشی مسائل کا واحد حل آئی ایم ایف کا پروگرام ہے، جس کی منظوری کی امید بہت زیادہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’پاکستانی معیشت اگلے تین مہینوں تک محفوظ ہے، تاہم اس کے بعد کے لیے حکومت کو معاشی میدان میں مضبوط اور دور رس فیصلے کرنا ہوں گے۔‘
ڈاکٹر خاقان نجیب نے پاکستانی معیشت کے محفوظ ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان کو جلد ہی چین کی طرف سے 2.3 ارب ڈالر ملیں گے، جس سے غیر زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’سعودی عرب کی پاکستانی بینکوں میں جو رقوم رکھی ہوئی ہیں ان کے دو گنا ہونے کی صورت میں حالات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس تمام صورت حال کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پاکستانی معیشت کو سنبھالنے کی خاطر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ كے سربراہ ڈاكٹر عابد قیوم سلہری اپریل میں روزنامہ دی نیوز میں چھپنے والے ایک مضمون میں لكھتے ہیں كہ سری لنکا كی معاشی بدحالی میں پاكستان كے لیے کچھ سبق موجود ہے، جس میں سب سے بڑا سیاسی مقبولیت كی خاطر معیشت كو داؤ پر لگانا ہے۔
وہ مزید لكھتے ہیں: ’حکومت سازی کی دوڑ میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ناموافق بیرونی عوامل كی موجودگی میں ان میں سے کوئی بھی توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے، ٹیکسوں میں کٹوتی اور چھوٹ دینے یا روپے کی شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پر مستحکم کرنے کے قابل نہیں ہوگا، ان میں سے کوئی بھی آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر بیرونی ذمہ داریوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہو گا، اور اس طرح یہ سب کے مفاد میں ہے کہ میکرو اکنامک استحکام کے لیے کم از کم ایجنڈے پر اتفاق کیا جائے۔‘
ان کے مطابق اس طرح کے اتفاق رائے میں ناکامی، معاشی اصلاحات کے اقدامات کو سیاسی بنانا اور ان کی مخالفت برائے مخالفت کرنا اقتدار میں موجود جماعتوں کو قلیل مدتی پاپولسٹ پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کر دے گا۔
’سری لنکا کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس طرح کے پاپولسٹ اقدامات معاشی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔‘