بھارتی پنجاب میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی بڑی وارداتوں کی طرز پر پاکستان کے صوبے پنجاب میں بھی برطانیہ کینیڈا اور دبئی میں بیٹھے گینگسٹرز کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق پنجابی سنگر سدھو موسے والا کے قاتل تو گرفتار ہو گئے لیکن لارنس بشنوئی گینگ کے کینڈا میں موجود گولڈی برار کا اس کے پیچھے ہاتھ ہونے کے باوجود کارروائی مشکل دکھائی دیتی ہے۔
اسی طرح پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی گینگسٹر بیرون ملک بیٹھ کر اپنے گینگز کے زریعے جرائم کروا رہے ہیں۔
سینٹرل انویسٹیگیشن ایجنسی ( سی آئی اے) لاہور کے افسر محمد عملی بٹ نے تسلیم کیا کہ لاہور اور پنجاب میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی بڑی وارداتوں میں بیرون ملک فرار ہونے والے گینگسٹرز ملوث ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ گینگسٹرز جن ممالک میں مقیم ہیں ان کے ساتھ پاکستان کے مجرمان حوالگی کے معاہدات موجود نہیں۔ اس لیے ایسے گینگسٹرز کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔
بیرون ملک سے گینگسٹرز کا طریقہ واردات
پولیس افسر محمد علی بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب خاص طور پر لاہور سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد پہلے یہاں جرائم کرتے ہیں اور پھر وہ اپنے گینگ بنا لیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس کی کارروائیاں ان کے خلاف جاری رہتی ہیں اس لیے جو بچ جاتے ہیں یا عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں ان میں سے بعض بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔‘
سی آئی اے پولیس افسر نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس ان کے فرار ہونے کی اطلاع آتی ہے تو ہمیں پہلے وزرات داخلہ کو لیٹر لکھنا پڑتا ہے۔ پھر وہ ایف آئی اے امیگریشن کو لکھتے ہیں۔ جب تک کسی بھی مجرم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈلتا ہے وہ فرار ہو چکا ہوتا ہے۔‘
محمد علی بٹ کے بقول ’ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارا کوئی متعلقہ افسر ایف آئی اے امیگریشن کو اطلاع دے اور فوری اس مجرم کو باہر جانے سے روکا جائے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ وہ باآسانی نکل جاتے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک گینگسٹر لالہ شہباز یہاں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں میں مطلوب تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نے اس کے خلاف گھیرا تنگ کیا تو وہ سیالکوٹ ایئر پورٹ سے غیر قانونی طور پر امریکہ بھاگ گیا اور وہاں سے کینیڈا چلا گیا۔‘
پولیس افسر نے بتایا کہ لالہ شہباز نے ’وہاں سے بیٹھ کر یہاں وارداتیں شروع کروائیں اور بھتہ نہ دینے پر کئی تاجر قتل کروا دیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس نے شوٹرز پکڑ لیے جو ابھی تک جیل میں ہیں مگر لالہ شہباز نے کئی اور شوٹر تیار کر لیے جو اب بھی اس کیگینگ میں کام کرتے ہیں۔‘
سی آئی اے افسر نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’جب اس کے سب سے زیادہ وارداتیں کرنے والے شوٹر عمران پستول کی گرفتاری کے قریب پہنچے تو وہ بھی بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔‘
محمد علی بٹ نے بتایا کہ ’بلیک ایگل گینگ چلانے والے میر عبداللہ بھی ایسے ہی فرار ہوا اور اب دبئی یا قطر بیٹھ کر یہاں وارداتیں کروا رہا ہے۔ اس گینگ کے ایک شوٹر گاما کو گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی تو وہ بھی بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔‘
اسی طرح ایک گینگسٹر افضال گھنوں کی بیرون ملک فرار کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب وہ ’بیرون ملک سے لاہور اور پنجاب میں وارداتیں کروا رہا ہے۔ ان کے سروں پر دو لالھ سے زائد انعام رکھا گیا ہے لیکن وہ واپس آئیں تو قانون کی پکڑ میں آئیں گے۔‘
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق ایک سوشل میڈیا پوسٹ، جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ گولڈی برار کی ہے اور دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے جیل میں بند گینگسٹر لارنس بشنوئی کے ساتھ پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کے قتل کامنصوبہ بنایا۔
رپورٹ کے مطابق گولڈی برار نے سدھو موسے والا کو اس لیے مارا کیوں کہ ان کا نام اکالی رہنما وکی مدوکھیرا اور انکے کزن گرلال برار کے قتل کیس میں سامنے آیا تھا۔
ضلع فرید کوٹ سے تعلق رکھنے والے گولڈی برار کا اصل نام ستندر جیت سنگھ ہے۔ وہ گینگسٹر لارنس بشنوئی کےقریبی ساتھی اور بھارتی پنجاب میں بھتہ خوری کا گینگ چلانے میں ملوث تھے۔
گولڈی برار اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں اور اپنے کارندوں کے ذریعے بھارتی پنجاب میں کارروائیاں کرتے ہیں۔
بیرون ملک کارروائی ممکن ہے؟
پولیس افسر محمد علی بٹ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر جن ممالک میں گینگسٹرز موجود ہیں اور بعض نے وہاں کی شہریت بھی لے رکھی ہے ان کے یہاں جرائم کا ٹھوس لنک پیش کریں تاکہ وہ قانونی طور پر ایسے خطرناک مجرموں کو ہمارے حوالے کریں۔
انہوں نے کہا کہا کہ ’ہمیں اپنا نظام بھی بہتر کرنا ہوگا تاکہ یہ جرائم پیشہ افراد بیرون ملک فرار ہو کر مزید خطرناک نہ بن سکیں لہذا ایئر پورٹس، ایف آئی اے اور محکہ پولیس کے درمیان رابطہ براہ راست بنانے کی ضرورت ہے تاکہ فوری کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔‘
ان کے خیال میں پولیس افسروں کو ایسے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کے لیے مستقل ڈیوٹیاں دی جائیں تاکہ وہ بہتر اور آزادانہ کارروائی کر سکیں۔
علی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’عدالتوں میں ان ملزموں کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ مقدمات چلائے جائیں تاکہ یہ ضمانت پر بھی رہا نہ ہوسکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کئی مجرموں کا انکاؤنٹر کیا گیا مگر پیچھے بیٹھے گینگسٹرز پھر بچ جاتے ہیں۔‘
علی محمد بٹ نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’باٹا پور سےگزشتہ ماہ پانچ سالہ بچے کو اغوا کر کے دس کروڑ تاوان مانگا گیا۔ جس نمبر سے تاوان کا مطالبہ کیا گیا وہ کال بھی دبئی سے کی گئی تھی اور اس میں بچے کی سوتیلی نانی ملوث تھی۔ پولیس نے ملزموں کو گرفتار کر کے بچہ بازیاب کروا لیا اور ایک ملزم پولیس مقابلہ میں مارا گیا۔‘
لیکن اس سب کے باوجود باہر بیٹھے ملزمان جو اس واقعے میں ملوث تھے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔