خیبر پختونخوا کے ضلع سوات اور اپر دیر کے بارڈر پر واقع درال سیدگئی نامی پہاڑی علاقے میں شدید ژالہ باری اور طوفان کے باعث لاپتہ چرواہوں کا تاحال سراغ نہ مل سکا۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ بدھ (21جون) سوات کی تحصیل بحرین تھانے کی حدود میں پیش آیا ہے۔
تاہم اب ریسکیو 1122 اپر دیر کے ترجمان ابراھیم خان نے لاپتہ چرواہوں میں سے ایک کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔
ریسکیو ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ لاپتہ چرواہوں میں سے اب تک ایک کی موت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ اسی واقعے میں تقریباً سات سو بھیڑ بکریاں ہلاک ہوگئیں ہیں۔
اس سے قبل تھانہ بحرین کے اہلکار طاہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ یہ درال نامی ایک اونچی پہاڑی ہے جہاں پر گرمی میں چرواہے مال مویشی لے کر جاتے ہے کیونکہ وہاں گھاس زیادہ ہے۔
طاہر خان نے بتایا کہ چرواہوں کا تعلق سوات کے مختلف علاقوں سے ہے تاہم ابھی تک پولیس ٹیم سرچ اپریشن میں مصروف ہے اور کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
طاہر نے بتایا ’یہ پہاڑی سطح سمندر سے بہت اونچائی پر واقع ہے اور وہاں تک پیدل جانا پڑتا ہے اور چوٹی تک پہنچنے میں پانچ چھ گھنٹے لگتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ پولیس ٹیم جائے وقوعہ پر جا چکی ہے لیکن چونکہ اس مقام پر موبائل سگنلز موجود نہیں اس لیے شام کو واپسی پر ہی مزید تفصیلات کا علم ہو گا۔
طاہر کے مطابق یہ ایک دشوار گزار آپریشن ہے کیونکہ ابھی تک ان کےپاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ سوشل میڈیا کی ہیں اورسوشل میڈیا پر یہ بھی چل رہا ہے کہ چرواہوں میں سے ایک کی موت بھی واقع ہوگئی ہے لیکن ابھی تک پولیس نے تصدیق نہیں کی ہے۔
یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟
طاہر خان کے مطابق سوات کے مختلف علاقوں سےچرواہے اس پہاڑی پر بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ دو دن پہلے ملک بھر اور خصوصا خیبر پختونخوا کے بالائی حصوں میں شدید بارش ہوئی تھی جبکہ سوات کےبالائی علاقوں میں برف باری اور طوفان بھی آگیا تھا۔
طاہر خان نے بتایا ’بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ یہ چرواہے بھیڑ بکریاں لے کر وہاں گئے ہیں اور راستے میں برف باری اور طوفان نے گھیر لیا اور وہیں پر لاپتہ ہوگئے۔‘
خدشہ یہ بھی ہے کہ بڑی تعداد میں بھیڑ بکریاں بھی مر گئی ہوں گی لیکن ابھی تک پولیس نےذاتی طور پر کسی چیز کی تصدیق نہیں کی ہے۔
یہ علاقہ چونکہ اپر دیر اور سوات کے بارڈر پر واقعہ ہے، تو ریسکیو1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انھوں نے اپر دیر اور سوات سے ٹیمیں سرچ اپریشن کے لیے بھیج دی ہیں لیکن اس جگہ تک پہنچنا بہت مشکل ہے کیونکہ راستہ دشوار گزار ہے۔
فیضی نے بتایا کہ ٹیم صبح سرچ اپریشن کے لیے نکلی ہے لیکن ابھی تک پہنچی نہیں ہے اور سگنلز نہ ہونے کی وجہ سے ان سےرابطہ بھی ہو پا رہا ہے۔
بلال فیضی نے بتایا’سوات ڈپٹی کمشنر دفتر، پولیس، مقامی رضاکار اور ریونیو دفتر کی ٹیمیں مشترکہ طور پر اپریشن میں حصہ لےرہے ہیں اور امید ہے لاپتہ چرواہوں کا سراغ لگایا جا سکے گا۔‘
اسی حوالے سے ڈپٹی کمشنر سوات کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق یہ چرواہے دو گروہوں میں تھے، جن میں سے ایک گروہ تقریبا 14 افراد پر مشتمل تھا اور سوائے ایک کی ہلاکت کے، باقی واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔
تاہم ڈپٹی کمشنر کے مطابق اس کے علاوہ چرواہوں کے جو باقی گروپس اوپر گئے تھے، ان کے حوالے سے ابھی سرچ اپریشن جاری ہے اور ٹیمیں ان کو تلاش کر رہی ہے۔